کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 217
ابن سیرین سے مراد محمد بن سیرین ہیں جو ۳۳ھ میں پیدا ہوئے جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور ۱۱۰ھ میں وفات پائی جو سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کی سال وفات ہے، انہوں نے جس فتنہ کے بعد حدیث کے بارے میں پوچھ گچھ کی خبر دی ہے وہ رافضیت اور خردج کا فتنہ ہے، جنگ صفین کے بعد یہ فتنہ پیدا ہوا اور بہت جلد شدت اختیار کیا گیا اور رافضی جو اپنے آپ کو شیعان علی کہتے تھے اور علی رضی اللہ عنہ کے سیاسی مخالف خوارج دونوں بہت جلد عقائد میں اہل سنت وجماعت کے عقائد کے خلاف ہو گئے، اپنے عقائد کی تائید میں خوارج نے تو حدیثیں وضع نہیں کیں ، لیکن روافض اس میدان میں بہت آگے نکل گئے، اور اپنے عقائد کی تائید اور علی رضی اللہ عنہ کے مناقب اور صحابہ کرام کی مذمت میں حدیثیں وضع کر کے پھیلانے لگے۔ ابن سیرین کے قول میں ’’اہل البدعۃ‘‘ سے یہی دونوں فرقے مراد ہیں : ناقدین رجال کے طبقہ اول کے متعدد ائمہ حدیث نے سند کی اہمیت اس کے اسباب کے ساتھ بیان کی ہے، میں نے ناقدین رجال کی جو مختصر فہرست اوپر دی ہے اس کی روشنی میں یہ پاسبان حدیث پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں پیدا ہو گئے تھے، جبکہ بکثرت صحابہ زندہ تھے اور ان کے زیر تربیت رہ کر یہ مقدس جماعت ’’کندن‘‘ بنی تھی اور پہلی صدی ہجری کے اختتام اور دوسری صدی ہجری کے اوائل تک ان ناقدین کی کثرت ہو گئی تھی۔ اس بے لوث، خدا ترس اور صالح جماعت کا ایک ایک فرد اپنے آپ کو حدیث رسول کا خادم سمجھتا تھا، اور دل وجان سے یہ خدمت ادا بھی کر رہا تھا۔ محدثین جب کسی حدیث کے جاننے والے کے بارے میں سنتے تو اس شہر کا بذات خود سفر کرتے اور اس کی زبان سے وہ حدیث سنتے، سید التابعین سعید بن مسیب (۵۱۵۔۹۴ھ) سے روایت ہے، فرماتے ہیں : ’’میں صرف ایک حدیث کی خاطر دو دنوں اور راتوں کی مسافت طے کر کے سفر کیا کرتا تھا۔‘‘ [1] رجال کی کتابوں ، اور بعض حدیث کی کتابوں کے مقدموں میں حصول حدیث کے لیے تابعین، تبع تابعین اور تبع تبع تابعین کے سفر کے مفصل حالات درج ہیں ۔ اصلاحی اور برنی نے اگر اپنے پسندیدہ مصنف خطیب بغدادی کی کتاب ’’الرحلہ فی طلب الحدیث‘‘ کا مطالعہ کر لیا ہوتا تو ان کے قلم سے وہ باتیں نہ نکلتیں جو مستشرقین کے قلم سے بھی نہیں نکلی ہیں ، اگر یہ کہا جائے کہ محدثین ہمیشہ حالت سفر میں رہتے تھے خاص طور پر پہلی صدی ہجری کے نصف آخر سے تو یہ عین حقیقت کا بیان ہو گا، یہ سفر جہاں حدیث کی تحصیل کے لیے ہوتا وہیں راویوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھی اور تبع تابعین کے طبقہ میں تو اس آخر الذکر مقصد کی اہمیت روایت حدیث سے کسی طرح کم نہیں تھی، اور چونکہ تابعین کے مروی عنہ بڑی تعداد میں صحابہ تھے اور تابعین کے متوسط اور جو ان طبقہ سے وابستہ لوگوں نے زیادہ تر بڑے تابعین سے
[1] الرحلہ فی طلب الحدیث ص: ۲۰۸۔