کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 216
سنت نہیں ہے اور چونکہ قرآن کی رو سے حدیث، قرآن کی طرح اور اس کے بالکل مساوی ماخذ شریعت ہے اس لیے یہ جاننا فرض تھا اور فرض ہے کہ کون سی حدیث صحیح ہے اور کس کا صرف نام حدیث ہے یاجو حدیث ہونے کی شہرت رکھتی ہے، حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں رکھتی اور یہ سب کچھ معلوم کرنے کا بنیادی ذریعہ یہ ہے کہ حدیث روایت کرنے والوں اور نقل کرنے والوں کے مفصل حالات معلوم ہوں ، یعنی یہ معلوم ہو کہ ان میں کون اس روایت اور نقل میں امین اور معتمد علیہ تھا اور کون نہیں ، اس تناظر میں گھر بیٹھ کر کسی راوی کو ثقہ قرار دے دینا اور کسی کو ضعیف کہہ دینا جہاں نہ راوی کے ہم عصر ہونے اور مکانی طور پر اس کے قریب ہونے کا متقاضی ہے اور نہ اس تو ثیق اور تصنیف کا عند اللہ اور عندا لناس کوئی اعتبار ہے، اگرچہ یہ توثیق اور تضعیف اتفاقی طور پر امر واقعہ کے مطابق ہو جائے، اور ایسا حکم لگانے والا اللہ ورسول کا دشمن ہے اس مقدس علم (حدیث) کا پاسبان اور محافظ نہیں اور ایسا شخص فرمان الٰہی کے بموجب اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے اس عمل کے بارے میں جواب دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۳۶) ’’اور اس چیز کی ٹوہ میں نہ رہو جس کا تمہیں کوئی علم نہ ہو در حقیقت کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘ (۲)… ہر ناقد رجال نے راویوں کی توثیق وتصنیف اپنی ذانی معلومات کی بنیاد پر کی ہے: میں اس سے قبل یہ عرض کر چکا ہوں کہ روایت حدیث کے ساتھ ہی نقد رجال کا عمل شروع ہو گیا تھا، میری مراد طبقہ تابعین سے ہے، کیونکہ روایت حدیث میں صحابہ کی ثقاہت عقلاً اور نقلاً محل بحث نہیں تھی، اور حدیث کی سند کے بارے میں تدقیق کا عمل علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے باہمی اختلافات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے معرکہ جمل وصفین کے بعد شروع ہوا، امام مسلم صحیح مسلم کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں : ((عن ابن سیرین قال: لم یکونوا یسألون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنۃ قالوا: سمو لنا رجالکم، فینظر إلی أہل السنۃ فیؤخذ حدیثہم، وینظر إلی أہل البدعۃ فلا یؤخذ حدیثہم۔)) ’’ابن سیرین سے روایت ہے کہتے ہیں : اہل الحدیث سند سے متعلق نہیں پوچھتے تھے، لیکن جب فتنہ پھوٹ پڑا، تو کہنے لگے: اپنے راویوں کے نام بتاؤ، اور اہل سنت کو دیکھتے تو ان کی حدیث لے لیتے اور اہل بدعت کو دیکھتے تو ان کی حدیث نہیں لیتے۔‘‘ [1]
[1] ص: ۳۵، نمبر: ۳۷