کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 215
یکجا نہیں مل سکتیں اور میں نے پوری کتاب میں اس بات کی پابندی کی ہے کہ صحت کی اعلیٰ ترین صفات سے موصوف احادیث سے استدلال کروں ، جن کو ائمہ فن نے صحیح قرار دیا ہے، محمود ابوریہ، غزالی، سلیمان ندوی، اصلاحی، غامدی اور برنی نے نہیں ، ان کی تصیح وتضعیف تو دو کوڑی کے برابر بھی نہیں ہے کہ اس کو درخور اعتنا سمجھا جائے۔ وہی اپنے امام کی راگنی: مشاہیر عرب شعراء اپنے اشعار اور قصائد کے خاص راوی اور ناقل رکھتے تھے جو ان کے قصائد کو پھیلاتے تھے، ان کو ’’داعیہ‘‘ کے وزن پر ’’راویہ‘‘ کہا جاتا تھا، غامدی اور برنی اپنے امام اصلاحی کے لیے اس ’’راویہ‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ، لیکن عرب شعراء کے راویوں کی طرح امین، نہیں خائن ’’راویہ‘‘ ہیں یہ اپنے حدیث مخالف افکار ونظریات لیتے تو مبادی تدبر حدیث ہی سے ہیں ، لیکن یہ دکھانے کے لیے کہ یہ ان کے اپنے افکار ونظریات ہیں ان میں کچھ تبدیلیاں کر دیتے تھے۔ ڈاکٹر افتخار برنی نے بھی حدیث کی سند میں جھول اور خلا دکھانے کی سعی مذموم کی ہے، افکار تو اسی ’’مبادی ‘‘ ہی سے لیے ہیں ، مگر بعض الفاظ بدل دیے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ یہ ان کے اپنے افکار ہیں ۔ اصلاحی صاحب نے سند میں خلا دکھانے کے لیے راویان حدیث کو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور بتایا ہے، برنی نے بھی یہی بات دہرائی ہے، مگر ’’ہزاروں ‘‘ کو ’’سیکڑوں میل‘‘ میں بدل دیا ہے، فرماتے ہیں : ’’سند کی تیسری کمزوری زمان ومکان کے فاصلوں سے عبارت ہے، سیکڑوں میل کی دوری پر موجود ایک شخص کے بارے میں ۱۰۰ فیصد یقین کے ساتھ رائے نہیں دی جا سکتی مذکورہ شخص اگر کسی اور عہد سے تعلق رکھتا ہو تو رائے دینا اور مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ اصلاحی صاحب کے اشکالات کا میں مفصل اور مدلل جواب دے چکا ہوں ، یہاں برنی صاحب کے دعوے کے جواب میں اپنی سابقہ باتیں دہراؤں گا نہیں ، بلکہ چند دوسرے زاویوں سے اس دعویٰ کی غلطی دکھاؤں گا: ۱۔ نقاد رجال نے گھر بیٹھے راویوں کی جرح وتعدیل کر لی تھی۔ ۲۔ ہر ناقد رجال نے جس راوی کی جرح وتعدیل کی ہے قریب سے اس کے حالات کا مطالعہ کرنے کے بعدنہیں کی ہے۔ ۳۔ نقاد رجال جرح وتعدیل میں امین نہیں تھے۔ اب میں ان عنوانات میں سے ہر عنوان کے تحت حقیقت حال بیان کروں گا: (۱)… نقاد رجال نے گھر بیٹھے راویوں کی جرح وتعدیل کر لی تھی: اوپر یہ بات بڑی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے کہ حدیث کے راویوں کی جرح وتعدیل کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حدیث یا سنت کے نام سے صرف وہی قول، فعل، تقریر اور سیرت پاک کا واقعہ معتبر قرار دیا جائے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ہو، کیونکہ جس قول، فعل، تقریر، اور سیرت پاک کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح نہ ہو، وہ حدیث یا