کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 213
کے حوالے اپنے قارئین کو مرعوب کرنے کے لیے دیتے ہیں ۔
ان کا یہ دعویٰ کہ: ’’امام مسلم نے ہر طبقہ میں دو معتبر راویوں کی موجودگی کا التزام کیا ہے، جبکہ امام بخاری اس شرط کو ضروری قرار نہیں دیتے‘‘ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے، جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :
۱۔ جس بات کا ائمہ حدیث کی کتابوں میں ذکر آیا ہے وہ برنی کی بات کے بالکل برعکس ہے؛ یعنی امام بخاری نے اپنی صحیح کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ ہر صحابی سے دو تابعین نے اور ان میں سے ہر تابعی سے دو دو ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہو، اور ان کی اس شرط کا ذکر سب سے پہلے امام عبداللہ محمد بن عبداللہ محمد حاکم (۳۲۱ھ ۔ ۴۰۵ھ) نے اپنی دو کتابوں ، (المستدرک ص:۲۳ ج: ۱، اور المدخل الی کتاب الاکلیل ص: ۳۶) میں کیا ہے۔[1]
۲۔ خود شیخین میں سے کسی نے اس شرط کا دعویٰ نہیں کیا ہے، اس لیے اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ پہلے درجہ میں امام بخاری نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ صحیح بخاری میں جو حدیث درج کریں اس کی روایت کرنے والے صحابی سے دو یا اس سے زیادہ تابعی اس کی روایت کریں ، بعد میں امام مسلم نے بھی اپنے مقدور بھر یہ کوشش جاری رکھی ہے، لیکن متعدد احادیث میں وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
مثالیں :
(۱)… پہلی مثال:
پہلی مثال جس میں حدیث کے راوی صحابی سے صرف ایک ہی تابعی نے حدیث روایت کی ہے، نیت کی حدیث ہے۔ اس حدیث کے راوی صحابہ میں صرف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں اور ان سے روایت کرنے والے صرف علقمہ بن وقاص لیثی ہیں ۔ [2]
(۲)… دوسری مثال:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے ایمان نہ لانے کا جو واقعہ بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اس کے راوی مسیب بن حزن رضی اللہ عنہما ہیں دونوں ، یعنی باپ ’’حزن‘‘ اور بیٹے ’’مسیب‘‘ صحابی تھے، اور مسیب سے اس حدیث کی روایت صرف ان کے تابعی بیٹے ’’سعید‘‘ نے کی ہے۔[3]
(۳)… تیسری مثال:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کی جو حدیث نقل کی ہے اور جس کے الفاظ ہیں :
((أما بعد، فواللّٰہ إنی لأُعطی الرجل وأدع الرجل، والذی أدع أحب إلی من
[1] مقدمہ ابن صلاح ص: ۱۹۷، فتح المغیث (ص: ۱۸۳، ج: ۴)۔
[2] بخاری: ۱، مسلم: ۱۹۰۷۔
[3] بخاری: ۳۸۸۴، مسلم: ۲۴