کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 212
ہوئے حدثنا یا أخبرنا کہنے کے بجائے ’’عن فلان‘‘ فلاں سے روایت ہے‘‘ کی تعبیر اختیار کرتا تھا، درانحالیکہ وہ ثقہ ہوتا تھا، مدلس‘‘ نہیں ، تو دونوں میں ملاقات اور سماع کا صرف امکان نہیں ، بلکہ غالب گمان تھا جو یقین کے قریب ہے، ایسی صورت میں امام بخاری کی طرح امام مسلم کا نقطہ نظر بھی قرین صواب ہے، اور راوی کے ثقہ ہونے کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اس کے ’’عنعنہ‘‘ کو بھی وہی درجہ دیا جائے جو حدثنا یا أخبرنا کو حاصل ہے۔
۲۔ لیکن ایک ہی زمانے میں پائے جانے والے راویوں میں سے اگر کوئی مصر سے تعلق رکھتا رہا ہو اور وہ خراسان میں سکونت پذیر کسی سے بذریعہ ’’عن‘‘ حدیث روایت کرے اور یہ معلوم ہو کہ اس نے خراسان کا کبھی سفر نہیں کیا ہے، ایسی صورت میں راوی اور مروی عنہ کے ایک ہی زمانے میں ہونے سے بھی ان میں ملاقات کا امکان تقریبا مفقود ہو جاتا ہے اس حالت میں بلاشبہ امام بخاری کا نقطہ نظر راحج ہو جاتا ہے، کیونکہ اس دوسری صورت میں ’’غلبہ ظن‘‘ یہی ہوتا ہے کہ راوی نے مروی عنہ سے وہ حدیث نہیں سنی ہے۔
قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر برنی کے دعوے اور میرے بیان کردہ حقائق میں موازنہ کر کے یہ دیکھیں کہ یہ منکرین، حدیث سے لوگوں کو متنفر کرنے کی غرض سے کتنی غلط بیانیاں کرتے ہیں یہ صحیح ہے کہ اردو داں طبقہ میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو باطل افکار وخیالات رکھنے والوں کے دعووں کی حقیقت طشت ازبام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اس طرح باطل کے پھولنے پھلنے کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں اور سطحی علم رکھنے والے ان فریب کاروں کے جال میں پھنستے جاتے ہیں اور ان کے دعووں کو سچ سمجھ کر ان کے ہمنوا اور آلہ کار بن جاتے ہیں ، لیکن ایک وقت آتا ہے کہ غلط بیانیوں اور فریب کاریوں کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اور حق کا سورج طلوع ہو کر تاریکیوں میں چھپے ہوئے باطل پرستوں کو عیاں کر دیتا ہے۔
برنی کا دوسرا جھوٹ:
ڈاکٹر برنی فرماتے ہیں :
’’دوسری طرف امام مسلم نے ہر طبقہ میں دو معتبر راویوں کی موجودگی کا التزام کیاہے، جبکہ امام بخاری اس شرط کو ضروری قرار نہیں دیتے۔‘‘
اس دعویٰ میں کسی بھی اعتبار سے کوئی صداقت نہیں ہے اور اس قول کا ماخذ بھی کوئی حدیث کی مستند کتاب اور علم الحدیث کی کوکئی مستند کتاب نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے، کیونکہ موصوف اس مقدس علم کے ساتھ عربی زبان بھی اتنی نہیں جانتے کہ کسی صاحب فن کی کوئی عبارت سمجھ سکیں ۔ وہ اپنے مضامین میں حافظ ابن عبدالبر اور حافظ بغدادی کے نام تو ضرور لیتے ہیں ، جبکہ ان کا مبلغ علم اپنے امام اصلاحی صاحب کے ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ تک محدود ہے، ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسرے منکرین حدیث کی کتابیں اور مضامین بھی پڑھتے ہیں جو اردو میں ہیں ، اور عربی کتابوں