کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 211
میں ہونے اور دونوں میں ملاقات ہونے کے مجرد امکان سے اس عنعنہ کو اتصال نہیں قرار دیا جائے گا اور ایسی روایت کو قبول کرنے میں توقف کیا جائے گا۔ امام محی الدین نووی رحمہ اللہ ’’المنہاج فی شرح صحیح مسلم‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یہی پسندیدہ مسلک ہے جس کو امام بخاری اور ان کے شیخ امام علی بن مدینی اور ان کے ہم خیال دوسرے ائمہ نے اختیار کیا ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ راوی اور مروی عنہ میں ملاقات کے ثبوت کی صورت میں ’’معنعن‘‘ حدیث متصل الاسناد سمجھی جائے گی، اس لیے کہ جو راوی ’’مدلس‘‘ نہ ہو ’’عن‘‘ کی تعبیر ’’سماع‘‘ کے لیے ہی استعمال کرتا ہے اور اس مسئلہ میں تتبع سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ راویان حدیث میں جو مدلس نہ رہے ہوں ان کا معمول یہی تھا کہ وہ عن کی تعبیر انہی حدیثوں کی روایت کے وقت استعمال کرتے تھے جو انہوں نے اپنے شیوخ سے سنی ہوں ، جبکہ مدلس کا طرز عمل اس سے مختلف تھا؛ وہ ایسی حدیث روایت کرتے وقت ’’عن‘‘ استعمال کرتا تھا جو اس نے اپنے شیخ سے نہ سنی ہو اس وجہ سے ہم نے ’’مدلس‘‘ کی معنعن روایت مسترد کر دی اور جب دونوں میں ملاقات کا ثبوت مل گیا تو بذریعہ عن روایت کی جانے والی حدیث کو ’’غلبہ ظن‘‘ کی بنیاد پر متصل الاسناد قرار دے دیا ، لیکن اگر دونوں میں صرف ملاقات کا امکان رہا ہو اور عملا ملاقات ثابت نہ ہو تو سند میں اتصال کا غالب گمان نہیں ہوگا لہٰذا اس حدیث کو متصل الاسناد قرار دینا جائز بھی نہ ہوگا، کیونکہ اس صورت میں ’’مروی عنہ‘‘ ’’مجہول‘‘ کی طرح ہوگا اور اس کی روایت مردود ہوگی، ایسا اس کے جھوٹا ہونے یا ضعیف ہونے کے یقین میں نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کی حالت میں شک ہونے کی وجہ سے کیا جائے گا۔‘‘ [1] نتیجہ: حدیث معنعن کے قبول یا رد سے متعلق امام بخاری اور امام مسلم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نقطہ ہائے نظر صحیح شکل میں پیش کر دینے کے بعد عرض گزار ہوں کہ دونوں فریقوں میں سے کسی کو دوسرے سے علی الاطلاق افضل قرار دینا نہ ممکن ہے اور نہ قرین صواب، بلکہ اس کے لیے بہتر اور مناسب تعبیر یہ ہے کہ امام بخاری اور امام ابن مدینی کا نقطہ نظر زیادہ محتاط اور حفظ حدیث کے مزاج اور تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے، جبکہ امام مسلم کے نقطہ نظر میں زیادہ وسعت ہے اور ثقہ راوی کے ساتھ حسن ظن کا پہلو اس میں غالب ہے جو اس طرح کے معاملات میں بسا اوقات زیادہ سود مند نہیں رہ جاتا مثال کے طور پر: ۱۔ شیخین کے زمانے اور ان سے پہلے کے زمانے میں جبکہ ایک ایک شہر اور قصبہ میں ائمہ حدیث اور ان سے کسب فیض کرنے والوں کی کثرت ہوتی تھی ایسی صورت میں اگر کوئی شیخ کسی دوسرے شخص سے حدیث روایت کرتے
[1] ص: ۷۱