کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 210
لوگوں میں یہ بات عام اور متفق علیہ ہی ہے کہ اگر کوئی ثقہ آدمی اپنی ہی طرح کے ایسے ثقہ آدمی سے کوئی حدیث روایت کرے جس سے اس کی ملاقات اور سماع ممکن ہو، کیونکہ دونوں ایک ہی زمانے میں تھے، اگرچہ ایسی کوئی خبر منقول نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے سے ملے ہیں اور دو بدو بات کی ہے، تو یہ روایت ثابت ہے اور اس کو دلیل وحجت ماننا لازمی ہے، سوائے اس کے کہ ایسی کوئی واضح دلیل موجو د ہو کہ راوی مروی عنہ سے نہ ملا ہے اور نہ اس سے کچھ سنا ہے، مگر جب صورت واقعہ غیر واضح ہے اور ہمارے بیان کے مطابق ملاقات کا امکان رہا ہے تو اس کی یہ روایت ہمیشہ سماع پر مبنی قرار دی جائے گی یہاں تک کہ اس کے برعکس کوئی خبر ثابت ہو جائے۔ ‘‘[1] امام مسلم کے قول کی وضاحت: امام مسلم کے مذکورہ بالا قول کی مختصر وضاحت ضروری ہے تاکہ اس کا مدعا سامنے رہے، اور آخر میں اس مسئلہ پر جو تبصرہ کروں گا اس کو سمجھنا آسان رہے: ۱۔ حدیث معنعن کو حجت ماننے کے لیے راوی اور مروی عنہ کا ایک زمانہ میں پایا جانا امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی لازمی شرط ہے جس میں وہ جمہور محدثین کے ساتھ ہیں ۔ ۲۔ راوی اور مروی عنہ کے مابین وہ ملاقات کی اہمیت کے منکر نہیں ہیں ، البتہ راوی کے ثقہ ہونے کی وجہ سے ملاقات کے امکان کو فعلی ملاقات کا درجہ دیتے ہیں ’’ایسا وہ ثقہ راوی سے متعلق اپنے حسن ظن کے جذبے سے کرتے ہیں ۔‘‘ [2] ۳۔ وہ راوی اور مروی عنہ کے درمیان عدم ملاقات ثابت ہونے کی صورت میں ’’معنعن‘‘ روایت کو مسترد کرنے میں جمہور محدثین کے ساتھ ہیں ۔ امام بخاری کی شرط: ’’معنعن حدیث‘‘ کو قبول کرنے اور حجت ماننے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی جو شرط ہے وہی دوسرے محدثین کی بھی شرط ہے، یعنی: اگر راوی اور مروی عنہ ایک ہی زمانے میں تھے اور راوی نے مروی عنہ سے حدیث بذریعہ ’’عن‘‘ روایت کی ہے، تو اگر ان دونوں میں ملاقات ثابت ہے، اگرچہ ایک ہی بار ہوئی ہو تو یہ ’’عنعنہ‘‘ اتصال اور سماع پر محمول کیا جائے گا اور روایت قابل قبول ہوگی، اس کے برعکس اگر ان میں ایک بار بھی ملاقات ثابت نہ ہو تو محض دونوں کے ایک ہی زمانے
[1] مقدمہ صحیح مسلم، ص: ۲۰، المنہاج ص: ۷۰، منۃ المعنم ص: ۵۱۔ [2] فتح المغیث ص: ۲۸۹، ج: ۱۔