کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 209
حدیث کی سند میں تدلیس یہ ہے کہ حدیث کی راویت کرنے والا اپنے معاصر سے ایسی حدیث روایت کرے جو اس سے نہ سنی ہو، لیکن طرز تعبیر ایسا اختیار کرے جو بصراحت نہ سننے پر دلالت نہ کرتا ہو، جیسے: ’’عن فلان‘‘ فلاں سے روایت ہے، ’’یا قال فلان‘‘ فلاں نے کہا؛ تو یہ دونوں تعبیریں ’’مروی عنہ‘‘ سے حدیث کے عدم سماع پر بصراحت دلالت نہیں کرتیں اور نہ بصراحت اس سماع ہی پر دلالت کرتی ہیں ۔ حدیث معنعن کے قبول کے لیے بخاری کی شرط: ڈاکٹر برنی نے بخاری اور مسلم کے مابین اختلاف کو اس رنگ میں پیش کیا ہے گویا وہ راویوں کی عمومی ثقاہت کے مسئلہ میں مختلف الرای تھے، جبکہ راوی اور اس کی ثقاہت کے مسئلہ میں تمام ائمہ کا اتفاق ہے اور اگر راوی کی تعدیل کے لیے ان کی تعبیروں میں کوئی اختلاف ہے بھی تو یہ اختلاف تضاد نہیں ، بلکہ تنوع اور توسع کا اختلاف ہے۔ انہوں نے دوسری غلطی یہ کی ہے کہ شیخین کے اس اختلاف کو تمام روایتوں تک پھیلا دیا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ اختلاف صرف ’’مُعنعن‘‘ روایت تک محدود ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک حدیث ’’مُعنعن‘‘ کے قبول کی شرط: اوپر ان غیر مدلس راویوں کی معنعن روایتوں کے قبول کے مسئلہ میں جمہور محدثین کے مسلک کو حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کے حوالہ سے بیان کیا جا چکا ہے جن کے درمیان کم از کم ایک بار ملاقات ثابت ہو، میں علوم الحدیث کے کسی موضوع سے متعلق حافظ ابن صلاح کا زیادہ حوالہ اس وجہ سے دیتا ہوں کہ ان کے مقدمہ کو اس موضوع میں ’’قانون‘‘ کی حیثیت حاصل ہے جس میں انہوں نے متقدمین کے اقوال کو پڑھ کر ان کے مالہ وماعلیہ کو سمجھ کر اور ان کو ہضم کر کے ان کا خلاصہ نہایت دقت کے ساتھ قانون کی زبان میں بیان کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے بعد سے آج تک یہ مقدمہ ’’علم حدیث‘‘ سے کسی طرح کا بھی تعلق رکھنے والوں کے لیے بنیادی ماخذ کا درجہ رکھتا ہے ابن صلاح نے متوسط سائز کے ۲۴۳ صفحات پر مشتمل اس مختصر سے مقدمہ میں نہایت خوبصورتی سے علوم حدیث بیان کر دیے ہیں جن کی شرحیں بعض لوگوں نے کئی ضخیم جلدوں میں لکھی ہیں : حدیث معنعن کے قبول کی جو شرط امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے عام طور پر محققین اس کا خلاصہ اپنی زبان مین بیان کرتے ہیں ، موضوع کی نزاکت کے پیش نظر میں صحیح مسلم کے مقدمہ کے اس فقرے کا مکمل ترجمہ درج کر دینا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے، حدیث معنعن کو قبول کرنے کے لیے راوی اور مروی عنہ میں معاصرت کے ساتھ ملاقات کی شرط لگانے والوں کا مسلک بیان کرنے کے بعد انہوں نے اپنا نقطہ نظر ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’اللہ تم پر رحم فرمائے سند میں حرف گیری کی یہ بات نئی ہے ایسی بات کہنے والے سے پہلے اہل علم میں سے کسی نے بھی ایسی بات نہیں کہی ہے، بلکہ اخبار اور روایت کا علم رکھنے والے پہلے کے لوگوں اور موجودہ