کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 208
مردود اور نہ اس میں اس کی صحت کو داغدار بنانے والا کوئی بڑا عیب ہی ہو۔‘‘
واضح رہے کہ کسی صحابی کا صحیح قول یا فعل موقوف یا اثر اور اس سے نیچے کے راوی کا قول یا فعل مقطوع کہلاتا ہے۔
حدیث معنعن:
اگر کوئی کسی کے حوالے سے حدیث روایت کرتے ہوئے روایتی تعبیریں ، ((حدثنی و حدثنا وأخبرنی وأخبرنا۔)) اس نے مجھ سے حدیث بیان کی، یا اس نے ہم سے حدیث بیان کی، یا اس نے مجھے خبر دی، یا اس نے ہمیں خبر دی استعمال کرنے کے بجائے ’’عن فلان‘‘ فلاں سے روایت ہے، کی تعبیر اختیار کرے تو علوم الحدیث کی اصطلاح میں اس فعل کو ’’عنعنۃ‘‘ اور اس طریقے سے روایت کی جانے والی حدیث کو ’’معنعن‘‘ کہتے ہیں ، یعنی بذریعہ ’’عن‘‘ روایت کی جانے والی حدیث۔
بذریعہ ’’عن‘‘ روایت کی جانے والی حدیث اپنے ثبوت میں روایتی تعبیروں کے ذریعہ روایت کی جانے والی حدیثوں سے قدرے مختلف ہے جس کی تفصیل یوں ہے:
۱۔ اگر راوی ثقہ ہے اور اس کے اور مروی عنہ کے درمیان ’’معاصرت‘‘ کے علاوہ ملاقات بھی ثابت ہے، چاہے ایک ہی بار سہی تو بذریعہ ’’عنعنہ‘‘ روایت کی جانے والی حدیثیں ’’متصل الاسناد‘‘ ہی باور کی جائیں گی۔
حافظ ابن صلاح نے ’’حدیث معنعن‘‘ کے بعض علمائے حدیث کے نزدیک مرسل یا منقطع قرار دیے جانے کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’صحیح بات جس پر عمل ہے یہ ہے کہ یہ حدیث اس حدیث کی مانند ہے جس کی سند متصل ہو یہی تمام محدثین اور غیر محدثین کا مسلک ہے اور صحیح حدیث کی شرائط وضع کرنے والوں نے اپنی تصنیفات میں اس حدیث کو ’’متصل الإسناد‘‘ ہی کی حیثیت سے درج کیا ہے اور اس کو قبول کیا ہے، بلکہ حافظ ابو عمر بن عبدالبر نے اس پر ائمہ حدیث کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اور حافظ ابو عمرو دانی مقری کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ’’اہل نقل‘‘ کا اس پر اجماع ہے، بشرطیکہ جن راویوں کی طرف ’’عنعنہ‘‘ کی نسبت کی گئی ہے وہ آپس میں ایک دوسرے سے مل چکے ہوں اور ’’تدلیس‘‘ کے عیب سے پاک رہے ہوں ۔‘‘[1]
تدلیس کی تعریف:
علوم الحدیث کی اصطلاح میں ’’تدلیس‘‘ سے مراد سند کے عیب کو چھپا کر اس کو مستحسن اور قابل قبول بنا دینا ہے۔ یہ لفظ دراصل سامان تجارت میں موجود عیب کو چھپانے کے لیے بنایا گیا ہے، پھر ہر طرح کے عیوب کو چھپانے اور دھوکہ دہی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
[1] ص: ۴۶۔۴۷