کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 207
حدیث ’’معنعن‘‘ کے ثبوت کا مسئلہ ہے اور یہ بھی خوب سے خوب تر کا اختلاف ہے، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں ، ’’راویوں کی ثقاہت‘‘ کے مسئلہ میں محدثین میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حدیث صحیح کی تعریف:
جب ہم حدیث یا سنت کا لفظ بولتے ہیں تو حتمی اور یقینی طور پر ہم وہ حدیث یا سنت مراد لیتے ہیں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اور ثابت ہے، اس کے ساتھ ’’صحیح‘‘ کا اضافہ تاکید مزید کے لیے کرتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس حدیث یا سنت کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اور ثابت نہ ہو، وہ سرے سے حدیث ہی نہیں ، اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح حدیث کی تعریف ہے:
علوم الحدیث کے امام الائمہ حافظ ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن شہرزوری معروف با بن صالح فرماتے ہیں :
((أما الحدیث الصحیح: فہو الحدیث المُسنَد الذی یتصل إسنادہ بنقل العدل الصابط عن العدل الضابط إلی منتہاہ ولا یکون شاذا ولا معللاً۔))
’’صحیح حدیث، سند کے ساتھ روایت کردہ وہ حدیث ہے جس کی سند کی تمام کڑیاں آپس میں جڑی ہوئی ہوں اور نیچے سے اوپر تک تمام راوی عدالت اور حفظ وضبط سے موصوف ہوں ، اور اس کے راویوں ، یا کسی راوی سے قوی تر اور ثقہ تر راوی کی روایت کردہ کوئی حدیث اس کے خلاف نہ ہو، اور وہ اپنے متن یا سند میں ایسے کسی مخفی عیب سے پاک ہو جس سے اس کی صحت متاثر ہوتی ہو۔‘‘ [1]
حافظ ابن صلاح نے اس کے بعد لکھا ہے:
((فہذا ہو الحدیث الذی یُحکم لہ بالصحۃ بلا خلاف بین أہل الحدیث: وقد یختلفون فی صحۃ بعض الآحادیث لاختلافہم فی وجوہ ہذہ الأوصاف فیہ۔))
’’یہ ہے وہ حدیث جس کو اہل حدیثوں کے کسی اختلاف کے بغیر صحیح کہا جاتا ہے اور علمائے حدیث، حدیث میں ان اوصاف کے وجود کے مسئلہ میں اپنے اختلاف کی وجہ سے بعض حدیثوں کی صحت میں مختلف الرای ہو سکتے ہیں ۔‘‘
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں :
’’صحیح کی اس تعریف کا یہ حاصل ہے کہ صحیح حدیث وہ ہے جس کی سند کی کڑیاں متصل ہوں اور اس کو نقل کرنے والے سب عدل ہوں اور حفظ وضبط سے موصوف ہوں اور اس کا سلسلہ نیچے سے اوپر تک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک، یا آپ کے کسی صحابی تک یا اس سے کمتر درجہ رکھنے والے تک پہنچتا ہو، اور وہ نہ شاذ ہو، نہ
[1] علوم الحدیث ص: ۲۱، اختصار علوم الحدیث ص:۳۲۔