کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 206
ان کے اعتراضات کو پڑھ کر ہضم کر چکے ہیں ، انہوں نے اپنے قسط وار مضمون: حدیث پاک کی حیثیت دو انتہاؤں کے درمیان‘‘ میں اپنے نظریہ حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے، سعودی عرب میں مقیم ہونے کی وجہ سے وہ حدیث سے اپنے بغض ونفرت کا برملا اظہار نہیں کرتے، مولانا اصلاحی کی کتاب ’’مبادیٔ تدبر حدیث‘‘ ان کی نطر میں ہے، بلکہ یہ اس مقالے میں ان کا ماخذ ہے، برنی صاحب نے بھی اپنے امام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حدیث کی سند میں جھول اور خلا دکھائے ہیں اور بعض جگہوں پر الفاظ بدل دیے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ ان کا اپنا حاصل مطالعہ ہے، انہوں نے سند کی کمزوری پر اپنے اس دعوی سے استدلال کیا ہے کہ: ’’اسلامی تاریخ کے تین عظیم ترین محدثین، امام مالک، بخاری اور مسلم کئی معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف آراء رکھتے ہیں ، بطور خاص راویوں کی ثقاہت کے باب میں ان کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً امام بخاری حدیث کے راوی کے لیے یہ لازمی قرار دیتے ہیں کہ وہ اپنے شیخ کا معاصر ہو اور اس سے اس کا سماع بھی ثابت ہو، امام مسلم سماع کا ثبوت نہیں مانگتے وہ صرف معاصرت کو کافی سمجھتے ہیں ۔‘‘ (روشنی، ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء) میں ڈاکٹر برنی کی اس عبارت پر مفصل تبصرہ کرنے سے قبل دو باتیں عرض کر دینا چاہتا ہوں : (۱) وہ بخاری اور مسلم کا اختلاف سمجھے ہی نہیں ۔ (۲) راوی اور مروی عنہ کے درمیان ملاقات کے مسئلہ میں شیخین کا اختلاف، اختلاف اضداد نہیں ، خوب سے خوب تر کا اختلاف تھا۔ حدیث کے ثبوت کے مسئلہ میں بخاری اور مسلم کے اختلاف کی حقیقت: ڈاکٹر افتخار برنی نے یہ دعویٰ تو برے طمطراق سے کر دیا کہ امام مالک، امام بخاری اور امام مسلم کئی معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف آراء رکھتے ہیں ، بطور خاص، راویوں کی ثقاہت کے باب میں ان کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہاں تک تو دعویٰ ’’مجمل‘‘ بلکہ محض دعویٰ تھا، لہٰذا اجمالی طور پر تین جلیل القدر محدثین کے ایک مسئلہ میں مختلف الرایٔ‘‘ ہونے کا دعویٰ کر کے قاریٔ کو یہ تاثر دینے کی سعی لا حاصل کی ہے کہ جب اتنے بڑے محدثین بھی راویوں کی ثقاہت جیسے اہم مسئلہ میں اتفاق نہیں رکھتے تھے، تو پھر فن روایت کی کسوئی پر پرکھی ہوئی حدیث کی صحت قابل اعتماد کس طرح ہو سکتی ہے؟ دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ تینوں اکابر محدثین کئی معاملات میں اختلاف رکھتے ہیں ، اور جب تفصیل بیان کرنے پر آئے تو جہاں امام مالک کا نام اڑا دیا وہیں صرف ایک معاملہ میں اختلاف دکھانے کی کوشش کی، کئی معاملات میں نہیں ، اور اس ایک معاملہ کے تعین میں بھی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے، اس سے موجودہ دور کے منکرین کے مبلغ علم، دیانت داری اور نصوص کے فہم کی صلاحیتوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل امام بخاری اور مسلم کے درمیان جس مسئلہ میں اختلاف منقول ہے وہ راویوں کی ثقاہت کا مسئلہ نہیں ،