کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 205
اس روایت کے باطل ہونے کی ایک اور نا قابل تردید دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ۱۴۰۰ صحابیوں کی جمعیت تھی، اور مذکورہ روایت کی رو سے یہ واقعہ ایک غیر آباد علاقہ صہباء میں پیش آیا، سورج غروب ہو گیا اور تاریکی ہو گئی، پھر طلوع ہوا اور روشنی ہو گئی علی رضی اللہ عنہ اٹھے، وضو کیا اور اعتدال کے ساتھ نماز عصر ادا کی، لیکن اتنے بڑے معجزہ کا مشاہدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے نہیں کیا، کیونکہ اس معجزے کا ذکر کسی نے نہیں کیا ہے اور حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں منقول نہیں ہوا ہے، صرف امام طحاوی نے اس کو اپنی کتاب ’’مشکل الآثار‘‘ میں نقل کیا ہے اور اس کی سب سے عمدہ سند میں دو راوی ’’مجہول‘‘ ہیں ۔ اس بات کو میں نے نا قابل تردید دلیل اس لیے کہا ہے کہ: ’’معجزہ شق القمر‘‘ صرف ایک لمحہ کے لیے ہوا تھا، یعنی قمری مہینے کی چودہویں رات تھی، چاند ابھی طلوع ہوا تھا کہ معجزے سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی پر اور دوسرا حصہ دوسری پہاڑی پر نظر آیا اور تھوڑی دیر کے بعد دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے، اور معجزے کے ظہور سے پہلے، اس کے اثنا اور اس کے بعد چاند کی روشنی جوں کو توں رہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ’’منی‘‘ میں تھے اور آپ نے لوگوں سے فرمایا: دیکھو اور گواہ رہو‘‘ یہ واقعہ حدیث کی مستند ترین کتابوں میں متعدد صحابہ کرام، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، حذیفہ، انس اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم کی روایت سے منقول ہے۔ [1] اس کے بالمقابل ’’سورج کا ڈوب جانے کے بعد دوبارہ طلوع ہو جانا‘‘ کہیں بڑا اور سنسنی پھیلا دینے والا واقعہ تھا، جزیرہ عرب کے پڑوسی ملکوں میں اور مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لیے ایک نہایت ہی حیرتناک اور سنسنی خیز تھا، مگر اس کا ذکر ایک صحابی خاتون کے سوا کسی زبان سے نہیں سنا گیا اور جن کتابوں میں یہ منقول ہوا ہے ان سب کی اساس ’’مشکل الآثار‘‘ ہے جس کی سند کا ایک راوی ’’محمود‘‘ یعنی مقبول ہے اور دو ’’مجہول‘‘ اگر اس روایت کی تصحیح مولانا زکریا یا مولانا تھانوی جیسے صوفیا نے کی ہوتی تو ہم کہتے کہ ان کو تو ایسے من گھڑت ’’خارق عادت‘‘ واقعات کی تلاش رہتی تھی، لیکن جس شخص کا لقب محدث کبیر اور محدث عصر ہو اس کی زبان سے محض اس وجہ سے اس کی تائید کہ اس کو ایک حنفی عالم نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، زیب نہیں دیتا، پھر اس کی زبان سے یہ دعویٰ کہ ائمہ رجال اپنے موافق کی جرح سے تو خاموش رہتے اور اپنے مخالف کی جرح کرتے تھے‘‘ عجیب ہے۔ تافہمی بھی علم: اس کتاب کے متعدد صفحات ڈاکٹر افتخار برنی کے ذکر خیر سے مزین ہیں موصوف طبیب ہیں ، مگر دینی امور سے بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں وہ حدیث یا علم حدیث کی کوئی ایک چھوٹی سی عبارت صحیح پڑھنے سے قاصر ہیں ، مگر حوالے موطا، بخاری، مسلم اور الکفایہ کا دیتے ہیں ، البتہ وہ منکرین کے افکار وآراء سے واقفیت رکھتے ہیں اور حدیث کی شرعی حیثیت پر
[1] بخاری: ۳۶۳۶۔۴۸۶۵، ۴۸۶۶، ۴۸۶۸، مسلم: ۲۸۰۰۔