کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 204
لیے کتب رجال کے علاوہ آپ کے پاس کون سے دوسرے ذرائع تھے، کشف وکرامت یا خواب؟ یا…؟ ۴۔ اہل تصوف میں شمار ہونے کی وجہ سے آپ صوفیا کی ان کتابوں کو تو ضرور مانتے رہے ہوں گے جن میں من گھڑت صلحاء اور اولیاء اللہ کی سیرتیں ، مناقب اور کشف وکرامت کے واقعات بیان ہوتے ہیں ، یہ کتابیں تو جھوٹ کا ’’پلندا‘‘ ہیں ، ایک محدث ہونے کے ناطے ان کتابوں اور ان میں درج مضامین کی صحت جانچنے کا آپ کے پاس کو نسا دوسرا ذریعہ تھا؟ ۵۔ کتب رجال میں تو راویوں کی جرح وتعدیل محض قیل وقال اور کٹ حجتی ہے تو آپ نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث کسی طرح صحیح مان لی جو سنداً اور متناً باطل ہے، اور شیعوں کی گھڑی ہوئی ہے، فیض الباری میں آپ نے اس جھوٹی روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بڑا زور لگایا ہے، جبکہ آپ کے پاس اس کی صحت کی صرف ایک دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس کو ’’مشکل الآثار‘‘ میں نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے پہلے سند کے راویوں کو ثقہ مانا ہوگا، پھر اس کو صحیح قرار دیا ہوگا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ امام طحاوی نے بصراحت اس کی تصحیح نہیں کی ہے، بلکہ انہوں نے اس کی سند کے صرف ایک راوی محمد بن موسیٰ مدنی کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ’’محمود‘‘ ہے، علمائے جرح وتعدیل کی کتابوں میں کسی راوی کی تعدیل کے لیے ’’محمود‘‘ کی تعبیر نہیں اختیار کی گئی ہے۔ لہٰذا وہ مقبول یا مامون کے معنی میں ہوگا جو تعدیل کا سب سے کمتر درجہ ہے۔ رہے اس سند کے دوسرے راوی، عون بن محمد بن ابی طالب اور ان کی والدہ: ام جعفر بنت محمد بن جعفر بن ابی طالب توامام طحاوی نے ان کی جرح التعدیل سے سکوت فرمایا ہے، یعنی یہ دونوں ان کے نزدیک مجہول تھے۔[1] مذکورہ جھوٹی روایت کی یہ سب سے عمدہ سند ہے: رہا اس روایت کا متن تو یہ باطل ہے اور اسلامی احکام سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ کسی نماز کا وقت نکل جانے پر وہ قضا ہو جاتی ہے ادا نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ نے محض علی رضی اللہ عنہ کی کرامت دکھانے کے لیے ڈوبے ہوئے سورج کو دوبارہ طلوع کر دیا تاکہ وہ عصر کی نماز اس کے وقت میں ادا کر سکیں ، جبکہ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور ان صحابہ کی نماز عصر کو اس کے وقت میں ادا کرانے کے لیے ڈوبے ہوئے سورج کو دوبارہ طلوع نہیں کیا جن میں علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا روایت کردہ یہ واقعہ غزوہ خیبر سے واپسی کے موقع پر مدینہ اور خبیر کے درمیان واقع ’’صہباء‘‘ کے مقام پر پیش آیا تھا، اور اسی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے ایک جگہ رات میں ’’پڑاؤ‘ ڈالا اور سو گئے اور سوتے رہے یہاں تک سورج طلوع ہو گیا اور نماز فجر ’’قضاء‘‘ ہو گئی، اور آپ نے اپنے اصحاب کو فجر کی نماز با جماعت قضا ہی پڑھائی، اصحاب میں علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ [2]
[1] ص ۳۰۷ [2] مسلم: ۱۵۸۰، ابو داود: ۴۳۵، نسائی: ۶۱۸۔