کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 203
برسوں میں پھیلے ہوتے تھے، لہٰذا پہلی ہی بات درست ہے کہ راویوں کی جرح وتعدیل، تجربات، مشاہدات، بار بار ملاقاتوں ، اور راوی کے متعلقین، اساتذہ اور شاگردوں کی آراء پر مبنی ہوتی تھی، اور حدیثوں کے درس ومطالعہ کی طرح راویوں کے حالات بھی ہمیشہ زیر بحث رہتے تھے، ائمہ رجال اپنے وقت کے سب سے صالح، خدا ترس، امانت دار اور غیر معمولی حافظہ کے مالک لوگ تھے ان کی اکثریت سے یہی متوقع ہے کہ انہوں نے راویان حدیث کی جرح وتعدیل کے مسئلہ میں امانت داری کے ساتھ حق گوئی اور صدق گوئی سے کام لیا ہو، اگر چند لوگ تعصب مذہبی میں مبتلا تھے یا ان پر معاصرت کا جذبہ غالب تھا یا ذاتی پسندو نا پسند سے مغلوب تھے تو اس کی کثرت کے مقابلے میں ان کی شاذ آراء نا قابل اعتبار تھیں ۔ میں بار بار یہ دعویٰ کرتا آ رہا ہوں کہ حدیث یا سنت قرآن کی طرح اور اس کے بالکل مساوی ماخذ شریعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، محدثین کے دعویٰ سے نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے اپنی اطاعت کی طرح اپنے رسول کی اطاعت بھی فرض کی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بلا استثنا آپ کو متبوع قرار دیا ہے، اگر میرا یہ دعویٰ خلاف حق ہے تو قرآن سے اس کو ثابت کیا جائے اور یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع آپ کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کا نام ہے اور آپ کے اوامر نواہی کو معلوم کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف حدیث یا سنت ہے، جبکہ قرآن کے احکام ونواہی کی تعمیل اللہ کی اطاعت ہے رسول کی نہیں ، اس مسلمہ حقیقت کی روشنی میں محدثین اس مقدس جماعت کا نام ہے جس کا اس دنیا میں اول وآخر نصب العین حدیث کی حفاظت اور اس کو بیرونی آمیزشوں سے پاک کرنا تھا اور راویان حدیث کی جرح وتعدیل اور ان کی ثقاہت وعدم ثقاہت حفاظت حدیث ہی کا ایک حصہ تھی، ایسی صورت میں اگر وہ بقول امین اصلاحی راویوں کی جرح وتعدیل میں ’’جبلی تعصب‘‘ سے پاک نہیں تھے اور بقول آپ کے راویوں کی جرح وتعدیل کے مسئلہ میں نقاد حدیث کے اقوال محض قیل وقال اور کٹ حجتی اور بحث وجدال سے عبارت تھے تو یہ محدثین حدیث رسول کے محافظ، حامی اور خادم نہیں ، بلکہ نعوذ باللہ دشمن اور معادی تھے، اس طرح وہ دین کے بھی دشمن تھے، اور وہ اس طرح کہ اگر وہ ایک ثقہ راوی کو تعصب سے مغلوب ہو کر، یا مسلک اور نظریہ میں اپنا مخالف پا کر ضعیف قرار دے دیتے تھے تو دوسرے لفظوں میں وہ ایک صحیح حدیث کے انکار کی فضا تیار کر رہے تھے تاکہ اس کو قبول کرنے اور مشعل راہ بنانے سے احتراز کیا جائے اس لیے کہ صحیح حدیث وہی ہے جس کی روایت ثقہ راوی نے کی ہو۔ اس کے برعکس اگر علمائے رجال کسی ضعیف راوی کو ثقہ قرار دینے میں اس کے اپنا ہم مسلک اور ہم نظریہ ہونے کو دیکھتے تھے تو اس صورت میں وہ خود اپنے نزدیک ایک ضعیف اور نا قابل اعتبار روایت کو ماخذ شریعت قرار دینے کی مہم انجام دے رہے تھے؟!! ۳۔ آپ کا ارشاد ہے کہ راویوں کی جرح وتعدیل کے مسئلہ میں آپ علمائے رجال کی باتوں کا ذکر زیادہ نہیں کرتے تھے، اس لیے کہ وہ قیل وقال اور کٹ حجتی کے قبیل سے ہیں ، سوال یہ ہے کہ راویوں کو ثقہ یا ضعیف قرار دینے کے