کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 202
اس کی جرح کرتے تھے۔ ۳۔ راویوں کی جرح وتعدیل میں ائمہ رجال کے اقوال محض کٹ حجتی سے عبارت ہیں وہ راوی کی ثقاہت وعدم ثقاہت بیان کرنے کے لیے نہ اطمینان بخش ہیں اور نہ کافی۔ ۴۔ مذکورہ بالا عبارت کے بعد فرمایا ہے: ہاں میں نے علمائے رجال کی جانب سے راویوں کی تحدید اور ان کی ذات کی معرفت کو درخور اعتنا سمجھا ہے تو صاحب نظر بار بار نظر ڈال کر اور مطالعہ کرکے اپنی رائے قائم کر سکتا ہے، جلد بازی سے نہیں ۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ علامہ کشمیری کے نزدیک راویوں کی جرح وتعدیل کے مسئلہ میں ائمہ نقد کے اقوال محض قیل وقال اور کٹ حجتی سے عبارت ہیں اور ان میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کا فقدان ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ علمائے رجال اپنے ہم مسلک اور ہم خیال لوگوں کی جرح سے تو خاموش رہتے اور جو ان کے مسلک اور نظریہ کا مخالف ہوتا تو اس کی جرح کرتے۔ اس دعویٰ کا مطلب ایک جملہ میں یہ ہوا کہ علمائے رجال ’’نا قابل اعتماد لوگ‘‘ تھے۔ علامہ کشمیری سے سوال: آپ نے فرمایا ہے کہ بعض علمائے رجال اتفاق کے موقع پر خاموش رہتے اور اختلاف کی صورت میں جرح کرتے، آپ سے مؤدبانہ سوال ہے کہ یہ بتا دیں کہ: ۱۔ ایسے لوگوں کا جمہور نقاد میں تناسب کیا تھا؛ ایک فیصد، دو فیصد، دس ۱۰ فیصد اگر ان کی تعداد دس ۱۰ فیصد بھی مان لیں جو اگرچہ مبالغہ آمیز ہے تو نوے ۹۰ فیصد غیر جانبدار اور انصاف پسند نکلتے ہیں ‘‘ کیا جرح وتعدیل کے مسئلہ میں اتنی بڑی تعداد کے احکام ناقابل اعتبار ہیں ؟ ۲۔ آپ کو امام ذہبی کا یہ قول معلوم رہا ہوگا کہ کسی ایک طبقہ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ دو علمائے رجال کسی ایک ضعیف راوی کو ثقہ قرار دینے اور کسی ثقہ راوی کو ضعیف قرار دینے پر متفق ہوئے ہوں ۔ [1] امام ذہبی کی حق پسندی، امانت داری اور مسلک ونظریہ سے بلند ہو کر بات کرنے پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ائمہ رجال نے اپنے طبقہ کے راویوں کی ثقاہت وعدم ثقاہت کے بارے میں جو احکام جاری کیے ہیں وہ بڑے تجربات، مشاہدات اور مطالعہ کے بعد جاری کیے ہیں اور ذاتی پسند نا پسند سے بہت بلند ہو کر حقائق کی روشنی میں جاری کیے ہیں اسی وجہ سے ان کی جرح وتعدیل میں یہ ہم آہنگی اور اتفاق رائے پایا گیا، یا ایک طبقہ کے تمام ائمہ رجال نے کسی ایک جگہ بیٹھ کر اور گٹھ جوڑ کر کے اس طبقہ کے راویوں کو عدل اور مجروح، یا ثقہ اور ضعیف کے عنوانوں کے تحت جمع کر دیا ایسا کرنا چونکہ اس دور میں ممکن نہیں تھا، کیونکہ کسی ایک طبقہ کے راوی، طبقہ کی مدت کے پیش نظر کوئی ۸۵
[1] الإعلان بالتوبیخ ص: ۱۶۷۔۱۶۸، بحوالہ درسات فی الجرح والتعدیل، ص: ۷۲۔