کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 201
ان تفصیلات کے بعد یہ کہنا انکار حق اور ہٹ دھرمی ہے کہ’’ رواۃ حدیث کے متعلق ان کی فراہم کردہ معلومات اور ان پرمبنی آراء عام انسانی جبلت میں موجود تعصب کے شائبہ سے پاک نہیں ہو سکتیں جو حق یا مخالف دونوں صورتوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘ اگر مولانا کی یہ بات درست ہے اور یہ محدثین اور نقاد رجال جبلی تعصبات میں مبتلا تھے اور انہوں نے ہزاروں انسان کے بارے میں ہزاروں صفحات پر پھیلی جو معلومات دی ہیں وہ اتنی ہی بے قیمت اور نا قابل اعتماد ہیں تو پھر مولانا کا ’’نسب نامہ‘‘ بھی صحیح نہیں ہے۔ علامہ کشمیری کی رائے: علامہ انور شاہ کشمیری برصغیر کے حنفی علمائے حدیث میں بہت بڑا نام ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں اور عصر صحابہ میں حدیث کی عدم تدوین کی انہوں نے جو توجیہ کی ہے اس سے حدیث کی شرعی حیثیت کے بارے میں احناف کے نظریہ کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی اس توجیہ پر مفصل اور مدلل تبصرہ کر چکا ہوں موصوف راویان حدیث کی جرح وتعدیل کے بارے میں جو نقطہ نظر رکھتے تھے اس کا ذکر فیض الباری کے مقدمہ میں مختصراً آیا ہے۔ فیض الباری کے جامع اور حاشیہ نگار مولانا بدر عالم مرٹھی فرماتے ہیں : ’’علامہ کشمیری جرح وتعدیل کے مسئلہ میں طول کلامی نہیں کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’اگر میں راویوں کے بارے میں نقاد رجال کے اقوال کو بکثرت نقل کروں اور اس میں جو قیل وقال کیا گیا ہے اس کا ذکر کروں (تو کر سکتا ہوں لیکن نہیں کرتا) اس لیے کہ میرے نزدیک یہ ان کی اعتدال پسندی کے وزن کو معلوم کرنے کی کوئی بڑی میزان نہیں ہے، ان میں سے بعض تو اتفاق کے موقع پر خاموش رہتے ہیں اور اختلاف کے موقع پر جرح کرتے ہیں اور یہ ایسا عمل ہے جو نہ تو شافی ہے اور نہ کافی، بلکہ یہ تو محض کٹ حجتی ہے۔‘‘[1] میں نے علامہ کی عبارت کے ترجمہ میں ’’بریکٹ‘‘ کے اندر جو عبارت لکھ دی ہے اس کی ضرورت اس لیے پڑی کہ انہوں نے اپنی بات کا آغاز ’’لو‘‘ سے کیا ہے اور بات ختم کر دی، مگر لو کا جواب نہیں لائے۔ اس مختصر سی عبارت میں علامہ کشمیری نے رواۃ حدیث کی جرح وتعدیل کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا ہے جس کو اگر توضیحی زبان میں بیان کیا جائے تو یوں کہہ سکتے ہیں : ۱۔ وہ راویان حدیث کی جرح وتعدیل سے متعلق ائمہ رجال کے احکام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اس لیے کہ اس میں اعتدال پسندی نہیں ہے۔ ۲۔ ائمہ رجال جس راوی کے مسلک ونظریہ سے متفق ہوتے اس کی جرح نہیں کرتے تھے اور جس کے خلاف ہوتے
[1] ص: ۲۰۔۲۱