کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 200
بکثرت بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر حسین بن ابی سری (حسین بن متوکل بن عبدالرحمن) جو تبع تبع تابعین کے متوسط طبقہ کا راوی ہے اور ضعیف ہے۔ اس کے راوی محمد بن ابی سری ثقہ راوی ہیں وہ اپنے اس بھائی کے بارے میں لوگوں سے کہا کرتے تھے: میرے بھائی سے حدیث ضبط تحریر میں مت لاؤ، کیونکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے اور ابو عروبہ حرانی اس کے بارے میں کہا کرتے تھے: وہ میری ماں کا ماموں ہے اور جھوٹا ہے‘‘[1] علم الرجال کے مسلم امام اور عظیم المرتبت محدث علی بن مدینی (علی بن عبداللہ بن جعفر) یہ تصریح کیا کرتے تھے کہ: میرا باپ ضعیف ہے‘‘[2] یہ صحیح ہے کہ ہم عصر علماء کی ایک دوسرے کی جرح کے واقعات بھی کتابوں میں مدون ہیں ، جو اگرچہ بہت کم ہیں ، پھر بھی محدثین نے اس طرح کی جرح کو قبول نہیں کیا ہے اور ایسے لوگوں کی صرف وہ جرح قبول کی ہے جس کا سبب بیان کر دیا گیا ہو۔ امام ذہبی فرماتے ہیں : ’’ہم پلہ اور ہم عصر لوگوں کی ایک دوسرے کی عیب جوئی اور تنقید ناقابل التفات ہے، خاص طور پر جب یہ ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ تنقید یا تنقیص کسی دشمنی کی پیداوار ہے، یا مسلک کے تعصب میں ہے یا اس کا محرک حسد ہے تو ایسی تنقیص اور جرح سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کو اللہ بچائے اور محفوظ رکھے، اور میرے علم میں کوئی ایسا زمانہ نہیں گزرا ہے کہ جس میں انبیاء اور راست بازوں کے سوا کوئی اور کلی طور پر اس سے محفوظ رہا ہو، تمہاری خواہش پر میں ایسے واقعات بکثرت بیان کر سکتا ہوں : ((اللّٰہم لا تجعل فی قلوبنا غلا للذین أَمنؤا ربنا إنک رؤوف رحیم۔)) ‘ ‘[3] مذکورہ بالا شاذ اور نا پسندیدہ طرز عمل کے برعکس تراجم وسیر کی کتابوں میں اکثریت ان محدثین کی ہے جنہوں نے اپنے ہم عصر محدثین کے حق میں ہمیشہ درست رائے دی ہے اور جن راویان حدیث کی جرح یا تعدیل کی ہے ذاتی پسند اور نا پسند، مسلکی انتساب، حسد یا کسی اور مذموم جذبے سے بہت بلند ہو کر کی ہے اور ہر شخصیت کی، جیسی وہ تھی تصویر پیش کی ہے اور اس کے بارے میں متقدمین اور ہم عصر نافذین کے جو اقوال نقل کیے ہیں وہ پوری امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ نقل کیے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ راویان حدیث کے تراجم وسیر کی کتابیں کسی انسان کے بارے میں منصفانہ آراء اور صحیح معلومات کا ایسا قابل اعتماد ذریعہ ہیں جس پر مسلمان بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ، اور غیر مسلم مصنفین میں ایسے انصاف پسند گزرے ہیں جنہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ محدثین کا ایجاد کردہ علم الاسناد اخبار وروایات کی تصحیح کا صحیح ترین طریقہ ہے۔‘‘ [4]
[1] میزان الاعتدال ص: ۷۹۰، ج: ۷۔ [2] میزان الاعتدال ص: ۷۴، ج: ۴، ترجمہ: ۴۲۵۲۔ [3] دراسات فی الجرح والتعدیل ص: ۸۴۔ [4] السنہۃ ومکانتہا فی التشریع الإسلامی ص: ۱۴۷۔