کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 198
آسان نہیں کہ ہر خاص وعام کا کماحقہ ادراک کر سکے۔‘‘[1] دراصل اپنے چہرے سے نقاب الٹا ہے۔ محدثین عام آدمی نہیں تھے: نہ محدثین کا شمار عوام میں ہوتا ہے اور نہ راویان حدیث کا قطع نظر اس کے کہ یہ راوی سچے مسلمان تھے یا ان کا تعلق معتزلہ، متکلمین اور صوفیا سے یا کسی اور فرقے سے تھا۔ پھر جن کا خاص میدان ہی جرح وتعدیل رہا ہو، اگر ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ’’کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے مقتضیات میں سے ہیں ‘‘ تو پھر کس کو معلوم ہوگا؟ ابوریہ، امین اصلاحی، برنی اور غامدی کو؟ میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ اصلاحی صاحب نے یہ فرما کر دراصل اپنے چہرے سے نقاب الٹا ہے۔ ورنہ ایک عام صحیح العقیدۃ مسلمان کو بھی یہ بات تفصیل سے نہ سہی اجمالی طور پر معلوم ہے کہ کردار کی اساسات کیا ہیں اور بدکرداری کی بنیادیں کیا ہیں ؟ میں نے اوپر جرح وتعدیل کے مسئلہ میں مختصراً جو کچھ عرض کیا ہے وہ علوم الحدیث کی متعدد کتابوں کا نچوڑ ہے، میں اس علم کا ادنی سا طالب ہوں ، کیا کوئی شخص ہوش وحواس میں رہ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ شعبی، ابن سیرین، شعبہ، بخاری، ابن معین اور ابن مدینی وغیرہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے مقتضیات میں سے ہیں ‘‘ اور ان کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ حسن کردار اور بدکرداری کیا ہے؟ اصلاحی صاحب نے اگر علوم الحدیث کی کوئی جامع اور مستند کتاب نہیں پڑھی تو صرف ’’رجال‘‘ کی کوئی کتاب پڑھ لیتے، دراصل انہوں نے پہلے ہی سے یہ طے کر رکھا تھا کہ ان کو حدیث کو ناقابل اعتبار ٹھہرانا ہے، محدثین کو ناقابل اعتماد قرار دینا ہے اور علم الاسانید اور اسماء الرجال کی قدر وقیمت گھٹانی ہے، ایسی صورت میں ان کے قلم سے جو غیر ذمہ دارانہ اور مضحکہ خیز باتیں نکلی ہیں خلاف توقع نہیں ہیں ۔ جمہور علمائے رجال تعصب سے پاک تھے: مولانا امین احسن اصلاحی کا دعویٰ ہے: ’’وہ بہرحال آدمی ہی تھے رواۃ حدیث کے متعلق ان کی فراہم کردہ معلومات اور ان پر مبنی آراء عام انسانی جبلت میں موجود تعصب کے شائبہ سے پاک نہیں ہو سکتیں جو حق یا مخالف دونوں صورتوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جن صالح انسانوں کے اوصاف بیان کیے ہیں ، کیا وہ آدمی ہی تھے یا کوئی اور مخلوق؟ اگر آدمی تھے اور تعصب جبلی سے پاک نہیں تھے تو پھر صالح، اللہ کے مقرب ومحبوب بندے اور راہ حق پر گامزن کس طرح تھے؟ اگر عام اور جمہور محدثین کے اندر تعصب کا کوئی شائبہ فطری طور پر رہا بھی ہوگا تو یہ کسی بھی راوی حدیث کی بیجا
[1] ص: ۹۴ [2] ص: ۹۴