کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 197
الانبیاء والمرسلین محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور سنت کی روایت کرنے والوں کے حالات جمع کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے: ﴿یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (الحجرات: ۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو خوب اچھی طرح تحقیق کر لو ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لا علمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کی سیرت پاک ماخذ شریعت ہے۔ اس تناظر میں اسماء الرجال کی تحقیق کرنے والے اپنے وقت کا عظیم ترین اور مقدس ترین کام انجام دے رہے تھے، کیونکہ وہ ایسے لوگوں کے حالات اور ایسے لوگوں کی ثقاہت وعدم ثقاہت کے بارے میں صحیح ترین معلومات جمع کر رہے تھے اور ان کو ضبط تحریر میں لا رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روایت کرتے تھے، بیان کرتے تھے اور تبلیغ کر رہے تھے اور اس عظیم فریضے کی مکمل اہلیت واستعداد کے ساتھ اس کا عشق رکھتے تھے، اور اس کو بحسن و خوبی انجام دینے کا ایک ’’دُھن‘‘ ان پر سوار تھا، اس راہ میں وہ جو لذت پاتے تھے اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نقاد رجال اپنے علم وفضل، صلاح وتقویٰ، امانت داری اور خدا ترسی اور اخلاص وللہیت میں اپنی مثال آپ تھے، میں نے ان میں سے جن ناموں کی فہرست دی ہے فضائل ومناقب اور سیرو تراجم کی کتابوں میں ان کا سرسری مطالعہ کر کے دیکھئے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ فرشتے آسمانوں میں نہیں زمین پر بستے ہیں ، عقیدہ وعمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے یہ عظیم انسان آسمان صلاح وتقویٰ اور صدق گوئی اور امانت داری کے سورج، چاند اور ستارے تو تھے ہی اپنی ذہانت، ثقاہت، ایثار وقربانی اور محنت وجاں فشانی میں بھی اپنی کوئی مثال نہیں رکھتے تھے، انہوں نے راویان حدیث کے حالات معلوم کرنے اور ان کے کوائف جمع کرنے کے لیے ان قصبوں اور شہروں کا سفر کیا جہاں وہ مقیم تھے، ہر ایک سے ملے، اس کی مرویات کی سند پر اس سے بحث کی، اس کے دوسرے متعلقین سے اس کے شب وروز اور اخلاق ومعاملات کی تفصیلات معلوم کیں ، خود ایسے لوگوں کے ساتھ نشست وبرخاست کر کے ان کے عقائد، اور مسلکی رجحانات سے واقفیت حاصل کی، واضح رہے کہ راویان حدیث چاہے وہ صحیح حدیث کے راوی ہوں یا ضعیف ومنکر اور موضوع کے عام افراد نہیں تھے؛ اگر وہ اہل سنت وجماعت سے تعلق رکھنے والے تھے تو اور اگر نئے عقائد، نظریات رکھنے والے تھے، یا معتزلہ، متکلمین یا صوفیہ میں شمار ہوتے تھے تو معروف ومشہور تھے۔ اصلاحی صاحب نے یہ فرما کر کہ: ’’یہ جاننا کہ کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے مقتضیات میں سے ہیں ہر شخص کا کام نہیں ہے، کردار کی اساسات کیا ہیں ، بدکرداری کی بنیادیں کیا ہیں یہ چیزیں اتنی