کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 196
قسمیں اور ہیں جن کی مرویات ناقابل قبول، اور نا قابل استدلال ہیں اور اعتبار کی غرض سے بھی ان کو ضبط تحریر میں لانا جائز نہیں ہے۔ علمائے رجال نے ان راویوں کے حق میں بجا طور پر جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ بڑے دقیق ہیں جن کو اگر پھیلایا جائے تو ایک دفتر تیار ہو سکتا ہے۔ ۱۔ متروک الحدیث، ذاہب الحدیث، لایُکتب حدیثہ، لا تحل الروایۃ عنہ، ضعیف جداً۔ (اس سے حدیث کی روایت ترک کر دی گئی ہے، روایت حدیث کے بالکل نا قابل، اس کی روایت کردہ حدیث لکھی نہ جائے، اس سے حدیث کی روایت جائز نہیں ، وہ بے حد کمزور ہے وغیرہ۔ ۲۔ ’’متہم بالکذب، متہم بالوضع، یسرق الحدیث، ساقط، متروک، لیس بثقۃ‘‘ (کذب بیانی کا ملزم، حدیث گھرنے کا ملزم، دوسروں کی مرویات اپنے نام سے روایت کرنے والا، گراہوا بے اعتبار، نظر انداز، ثقہ نہیں ) ۳۔ کذاب، دجال، وضاع، یکذب یضع (انتہائی جھوٹا، فریبی، حدیث گھڑنے والا، کذب بیانی کا مرتکب، حدیث گھڑنے کا مرتکب، یا کذب بیانی کرتا ہے، حدیث گھڑتا ہے)۔ ۴۔ اکذب الناس، إلیہ المنتہی فی الکذب (سب سے بڑا جھوٹا، کذب بیانی اس پر ختم ہے)۔ [1] علمائے رجال نے جرح وتعدیل کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ، وہ ان کی وقت نظر، راویوں کے حالات کے گہرے مطالعہ، حقیقت بیانی اور تجربات ومشاہدات کے ترجمان ہیں ، فطری طور پر بعض نقاد حدیث راویوں کی جرح کے لیے نرم اور ہلکے الفاظ استعمال کرتے تھے، جیسے امام احمد اور امام بخاری تو ایسے محدثین کی معمولی جرح بھی قابل غور اور قابل اعتبار ہے، لیکن جو نقاد جرح میں سخت الفاظ استعمال کرنے میں شہرت رکھتے تھے، جیسے امام ابو حاتم، امام علی بن مدینی اور امام یحییٰ بن معین، تو اگر انہوں نے کسی راوی کی معمولی جرح کی ہو تو اس کی وجہ سے وہ ساقط الاعتبار نہ ہو گا الا یہ کہ اسی طرح کے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کسی ایسے محدث نے بھی استعمال کیے ہوں ۔ جو جرح میں شدت پسندی سے دور تھا، البتہ جرح میں شدت پسندی سے کام لینے والے کسی محدث نے اگر کسی راوی کی توثیق کر دی ہو تو اس کی یہ تعدیل اور توثیق بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ نقاد رجال مردم شماری کے اہل کار نہیں تھے: حدیث کے راویوں کی تحقیق کرنے والے اور ان کے بارے میں ایسی معلومات جمع کرنے والے جن کی بنیاد پر ان کو روایت حدیث کا اہل اور نا اہل قرار دیا جانے والا تھا کسی حکومت کے محکمہ اعداد وشمار یا مردم شماری کے اہل کار نہیں تھے جن کو لوگوں کی تعداد شمار کرنی ہو، بلکہ یہ ایسے خوش بخت انسان تھے جو پوری انسانی تاریخ میں ایک ایسا عظیم اور مقدس کام کرنے نکلے تھے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں انجام دیا تھا، یعنی اولاد آدم کے سردار، سیّد البشر، افضل الرسل اور خاتم
[1] دیکھئے: مقدمہ ابن صلاح ص: ۸۱۔۸۳، الجرح والتعدیل ص: ۵۴۔۵۵، ۵۶۔۵۷ ج: ۱، دراسات فی الجرح والتعدیل ص: ۲۲۶، ۲۳۰ میزان الاعتدال، مقدمہ ص: ۱۱۴۔