کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 195
عدل راوی کے درجات: ۱۔ ثقہ، متقن، ثبت، حجت (قابل بھروسہ، روایت و درایت کا ماہر، بے حد قابل اعتماد، سراپا دلیل وحجت) ۲۔ صدوق، محلہ الصدق، لاباس بہ (بہت سچا، صدق گوئی کے مقام پر فائز، اس میں کوئی حرج نہیں ) ۳۔ شیخ یہ عدالت کا تیسرا درجہ ہے جو دوسرے سے کمتر ہے، جس راوی کا ذکر رجال کی کتابوں میں ’’شیخ‘‘ کے لقب سے کیا گیا ہے تو دوسرے راوی کی روایت کردہ حدیثوں کی طرح اس کی روایات لکھی جائیں گی اور ان کی صحت جانچنے کے لیے ان پر بھی غور کیا جائے گا۔ ۴۔ صالح الحدیث، اس کے معنی ہیں : روایت حدیث کے لیے مناسب اور ٹھیک ہے، اگر علم رجال کا ماہر کسی راوی حدیث کے بارے میں کہے: ’’صالح الحدیث‘‘ تو ایسے شخص کی حدیث اعتبار کی غرض سے لکھی جائے گی، جس کا مطلب ہے کہ تتبع کر کے دیکھا جائے گا کہ یہ اپنی روایت میں اکیلا اور منفرد ہے۔ یا اس میں اس کا کوئی شریک بھی ہے؛ پہلی صورت میں رد کر دی جائے گی اور دوسری صورت میں قبول کر لی جائے گی۔ یہ عدالت کا چوتھا اور سب سے پست درجہ ہے۔ یاد رہے کہ نقاد حدیث راویوں کی تعدیل کے لیے جو الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں وہ مختلف رہے ہیں ، لیکن اپنے مفہوم اور معنی میں ایک دوسرے کے مترادف ہیں ۔ ضعیف اور غیر ثقہ کے درجات: ۱۔ لین الحدیث، فیہ مقال، متکلم فیہ، فیہ ضعف، یُعرف وینکر، لیس بالمرضی۔ (روایت حدیث میں کمزور اور نرم خو، اس کی ثقاہت موضوع بحث ہے۔ ہدف تنقید رہا ہے۔ اس میں ضعف اور کمزوری ہے۔ معروف اور منکر روایتیں بیان کرتا رہا ہے۔ پسندیدہ نہیں ہے)۔ نقاد حدیث نے جس راوی کے بارے میں مذکورہ بالا الفاظ یا ان سے ملتے جلتے الفاظ استعمال کیے ہیں وہ ان کے نزدیک معمولی درجہ کا مجروح یا غیر ثقہ راوی ہے اس طرح کے راوی کی مرویات بالکل تو رد نہیں کی جائیں گی، بلکہ ’’اعتبار‘‘ کی کسوئی پر رکھ کر ان کو پرکھا اور جانچا جائے گا‘‘ ۲۔ ضعیف الحدیث، لا یُجتج بہ، لہ مناکیر، مجہول، مضطرب الحدیث۔ (روایت حدیث میں ضعیف اور کمزور ہے۔ دلیل وحجت بنائے جانے کے قابل نہیں ، اس کی مرویات میں منکر روایتیں ہیں ، غیر معروف ہے، روایت حدیث میں عدم استحکام اور تضاد بیانی سے موصوف ہے) مذکورہ اوصاف کے حامل راوی پہلے گروہ سے زیادہ ناقابل اعتبار ہیں ، ان کی روایت کردہ حدیثوں سے استدلال تو نہیں کیا جائے گا، البتہ اعتبار کی غرض سے ان کو لکھا جائے گا۔ ان غیر ثقہ راویوں کے علاوہ ناقابل اعتبار راویوں کی چار