کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 194
عزیز تر سمجھ کر حفاظت کرتا رہا ہو۔
ثقہ اور عدل راوی کی تعریف:
ثقہ اور عدل راوی وہ عاقل بالغ مسلمان ہے جو صدق گوہو، فسق وفجور سے پاک اور تقویٰ شعار رہا ہو، انسانیت اور شرافت سے گری ہوئی حرکتوں کا مرتکب نہ ہوتا رہا ہو، اگر اپنے حافظہ سے حدیث کی روایت کرتا رہا تو زبردست اور قابل اعتماد حافظہ کا مالک رہا ہو اور اگر اپنی کتاب سے روایت کرتا رہا تو اس کو مکمل احتیاط اور توجہ سے ضبط تحریر میں لایا ہو اور کسی غلط ہاتھ میں پڑنے سے اس کی حفاظت کرتا رہا ہو۔
مجروح اور غیر ثقہ راوی کی تعریف:
اوپر مذکور عدالت اور ضبط کی دونوں صفتیں یا ان میں سے کوئی ایک اگر کسی راوی کے اندر نہ پائی جائیں ۔ تو ایسا راوی مجروح، یا مطعون یا غیر ثقہ ہے۔
کسی راوی کے عدالت سے موصوف نہ ہونے یا غیر ’’عدل‘‘ ہونے کی ۵ شکلیں محدثین نے متعین کی ہیں :
(۱) جھوٹا ہو (۲) کذب بیانی کا ملزم ہو۔ (۳) فاسق ہو۔ (۴) بدعات کا مرتکب ہو۔ (۵) غیر معروف اور مجہول ہو، یعنی نہ کوئی اس کی ذات سے واقفیت رکھنے والا ہو اور نہ اس کے حالات سے۔
اسی طرح جو راوی حفظ وضبط سینہ یا ضبط سفینہ کی صفت سے موصوف نہ رہا ہو اس کی بھی ۵ شکلیں ہیں :
۱۔ روایت حدیث میں بے تحاشا غلطیوں کا مرتکب پایا جائے۔
۲۔ بے خبری اور حاضر دماغی کے فقد ان میں مبتلا رہا ہو۔
۳۔ کثرت وہم وخیال کا شکار رہا ہو۔
۴۔ حافظہ برا اور کمزور رہا ہو۔
۵۔ اس کی مرویات ثقہ راویوں کی مرویات کے خلاف پائی جاتی رہی ہوں ۔
یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ جس طرح حسن وخوبی میں درجات ہوتے ہیں وہیں بری خصلتوں اور برے اعمال میں بھی درجات ہوتے ہیں ۔ خود قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں میں فرق مراتب کا ذکر آیا ہے۔ البتہ ’’صدق رسالت‘‘ میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ یہ تو خیر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے، صحابہ کرام میں بھی درجات تھے، بلکہ خود مشرکین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نفرت وعداوت، اسلام اور مسلمان دشمنی اور اخلاقی برائیوں میں یکساں نہیں تھے۔ (ممتحنہ: ۸)
انہی حقائق کی روشنی میں محدثین نے جہاں عدل اور ثقہ راویوں کے درجات بیان کر دیے ہیں وہیں مجروح اور غیر ثقہ راویوں کے درجات بھی بیان کر دیے ہیں :