کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 192
اوپر محدثین کے تینوں طبقات کے جن چند ناقدین رجال کی فہرست دی ہے ان میں سے ہر ایک علی فرق مراتب علم و تفقہ، بصیرت وبصارت، تجربہ اور بیدار مغزی اور خلاق وکردار کی نہایت اعلیٰ چوٹی پر فائز تھا، ان میں سے ہر ایک کا تذکرہ متعدد ایسی کتابوں میں آیا ہے جن کے مصنفین نے مسلک ومذہب اور ذوق وپسند سے بہت بلند ہو کر ہر ایک کے حالات و کوائف بیان کیے ہیں ، اگر انہوں نے صرف اپنے پسندیدہ مصنف حافظ خطیب بغدادی کی شاہکار کتاب تاریخ بغدادہی کامطالعہ کر لیا ہوتا تو اس میں ان کو سیکڑوں راویان حدیث کے حالات وکوائف تفصیل سے مل جاتے اور ان کی جرح یا تعدیل کے مسئلہ میں کافی اطمینان بخش معلومات حاصل ہو جاتیں ، مگر برا ہو ذہنیتوں کے فتور کا کہ ایسا انسان اپنے نظریہ کے خلاف ہر بات کو خلاف حق سمجھتا ہے۔ محدثین اور راویان حدیث عام آدمی نہیں تھے: اگر محدثین اور ائمہ نقد علم وتفقہ اور اخلاق وکردار میں اصلاحی صاحب کے معیار کے نہ بھی رہے ہوں ، پھر بھی وہ عام انسان نہیں تھے، بلکہ ہر آبادی اور شہر میں اپنی خاص پہچان رکھتے تھے۔ اسی طرح حدیث کی روایت کرنے والے بھی عام آدمی نہیں تھے۔ چاہے وہ صحیح احادیث کے راوی رہے ہوں یا ضعیف، منکر اور موضوع احادیث کے اور ائمہ نقد کے لیے ہر راوی کے پاس پہنچنا ناممکن نہیں تھا خاص طور جبکہ ان محدثین اور ماہرین اسماء الرجال نے اپنے زندگیاں اس مقدس فریضے کے لیے وقف کر رکھی ہوں ، محدثین حدیث کی تحصیل اور رجال حدیث کے بارے میں ضروری معلومات کے حصول دونوں کے لیے سفر کرتے تھے۔ دسیوں کتابوں میں اس کے تذکرے موجود ہیں ۔ جرح وتعدیل کے موضوع معلوم ہیں : علوم الحدیث کا ایک معمولی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ راوی کی کون سی صفات موضوع جرح بنتی ہیں اور کن کی تعدیل مطلوب ہے یہ صحیح ہے کہ بعض ائمہ رجال نے بعض ایسے راویوں کی مرویات مسترد کر دی ہیں جو ان کی نگاہ میں ، نہ کہ حقیقت میں عدالت کی منافی حرکتوں کے مرتکب ہوتے تھے لیکن چونکہ لوگوں کو وہ اوصاف معلوم تھے جن سے عدل راوی کو موصوف ہونا ضروری ہے اسی طرح وہ ان خصلتوں سے بھی واقف تھے جن سے موصوف ہونے کی صورت میں ایک راوی مجروح ہو جاتا ہے لہٰذا جمہور نقاد کسی کے بارے میں کسی ’’شاذ‘‘ رائے یا قول کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اصلاحی کا یہ دعویٰ کہ: ’’ہر محقق یہ نہیں جانتا کہ جرح کسی چیز پر ہونی چاہیے اور تعدیل کسی چیز کی ہونی چاہیے، یعنی یہ جاننا کہ کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے مقتضیات میں سے ہیں ہر شخص کا کام نہیں ہے‘‘ یہ دعویٰ ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے کہ اصلاحی صاحب نے الکفایہ کا مطالعہ بھی سمجھ کر نہیں کیا تھا ورنہ وہ اس امت کے ائمہ رشدو ہدایت کے بارے میں ایسا دعویٰ نہ کرتے، البتہ خود ان کے حق میں یہ دعویٰ بالکل درست ہے میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ حدیث کے ایک معمولی طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ کون سا راوی عدل ہے اور کون غیر