کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 191
لَمَعْزُولُوْنَ﴾ (الشعراء: ۲۱۰۔۲۱۲) ’’اسے لے کر شیطان نہیں اترے ہیں اور نہ ایسا کرنا ان کے لیے مناسب ہی ہے اور نہ وہ یہ کر سکتے ہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس کے سننے سے الگ تھلگ ہیں ۔‘‘ محدثین اپنی خلقت کے اعتبار سے فرشتے نہیں ، بشر تھے، ان کا مادہ تخلیق ’’نور‘‘ نہیں ، ’’مٹی‘‘ تھا، لیکن اپنے اخلاق وکردار، اللہ ورسول سے بے پناہ محبت، کتاب وسنت کی تعلیمات کی پیروی، امانت داری اور اخلاص اور علم وفضل اور بیدار مغزی میں اپنی مثال آپ تھے، ان میں سے بعض کی بعض تسامحات اور بعض بشری کمزوریوں کو بنیاد بنا کر سب پر ’’بے خبری‘‘ کا حکم لگانا اور موجودہ دور کے غالی اور متنفر لوگوں سے ان کو تشبیہ دینا بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے۔ جرح وتعدیل کا کام بلاشبہ مشکل تھا، مگر نا ممکن نہیں تھا اور جن نفوس قدسیہ نے اپنے غیر معمولی حافظہ اور بے مثال بیدار مغزی کے ساتھ اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا اور مسلسل سفر میں رہتے تھے، اور جن کی للہیت اور اخلاص کی مثال بیان کی جاتی تھی ان کے لیے اپنے ہی دور کے راویان حدیث کے شہروں اور قصبوں میں جا جا کر ان کے حالات معلوم کرنا محنت طلب تو تھا، لیکن ان کی استطاعت میں تھا اور انہوں نے اس کام کو جس حسن وخوبی سے انجام دیا اس حسن وخوبی سے اسے انجام دینا تو درکنار اس کا تصور بھی ان سے پہلے ذہن بشری میں نہیں تھا۔ امین اصلاحی کو تو ایک مفسر قرآن اور داعی الی اللہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس کے باوجود انہوں نے اس بات کی پوری مذموم کوشش کی ہے کہ وہ محدثین کو علم وتفقہ، بصیرت اور تجربے اور معقولیت سے عاری کر کے دکھائیں ۔ بیت القصید: اصلاحی صاحب نے اس تمہیدی عبارت کے بعد جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ ہے ’’بیت القصید‘‘ فرماتے ہیں : ’’جرح وتعدیل کا کام علم، فقاہت، بصیرت، تجربے اور معقولیت کا متقاضی ہے، انسان ہمیشہ انسان ہی رہے ہیں ، فرشتے نہیں رہے ہیں ، فن اسماء الرجال کے ماہرین کا معیار اخلاق، بصیرت وبصارت بے شک ہم سے اونچا رہا ہے، لیکن وہ بہرحال آدمی ہی تھے، رواۃ حدیث کے متعلق ان کی فراہم کردہ معلومات اور ان پر مبنی آراء عام انسانی جبلت میں موجود تعصب کے شائبہ سے پاک نہیں ہو سکتیں جو حق یا مخالف دونوں صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ ‘‘[1] انسان فرشتہ نہیں ہے تو شیطان بھی نہیں ہے: اصلاحی صاحب نے جرح وتعدیل کے کام کے لیے جن اوصاف کو ضروری قرار دیا ہے، کیا ائمہ نقد رجال ان سے موصوف نہیں تھے، ان کے انداز بیان سے یہی جھلکتا ہے۔ یہاں انہوں نے کسی امام کی کوئی مثال نہیں دی ہے، میں نے
[1] ص: ۹۴