کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 190
کوئی ذاتی غرض وابستہ تھی، بلکہ اس مقدس، مگر مشکل اور حد درجہ محنت طلب عمل کا صرف ایک ہی محرک اور داعیہ تھا اور وہ یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور اقوال وافعال اور آپ کی ذات مقدس سے متعلق تمام چیزوں کو ہر آمیزش سے پاک کر کے پیش کریں ، اور جن بدنصیبوں نے حدیث یا سنت میں کوئی ملاوٹ کرنے کی کوشش کی ہے یا روایت میں غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں یا اپنی من گھڑت اور خود ساختہ عبارتوں کو حدیث کا نام دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ان کو منظر عام پر لائیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس آخری دین کا محافظ ہے، مگر اس کی حفاظت کا کام اپنے بندوں سے لیتا ہے۔ یہ دنیا عالم الاسباب ہے، اور اللہ نے اپنے آخری ہدایت نامہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے۔ پھر بھی اول روز سے، بلکہ نزول قرآن کے شروع ہونے سے پہلے ہی سے ایسے انتظامات فرما دیے کہ اس کی آخری کتاب میں کوئی ملاوٹ نہ ہونے پائے اس کے لیے اس نے ایسا نہیں کیا کہ اس نے انسانوں کو ایسا نہ کرنے پر فطری اور جبلی طور پر مجبور کر دیا، نہیں ، بلکہ اس نے اہل شر کو پوری آزادی بخش دی کہ اس قرآن کو بدلنے اور اس میں حذف واضافہ کرنے کے لیے جو کچھ چاہیں کریں ، دوسری طرف اپنے صالح اور اہل خیر پسند بندوں کو ایمان وعمل کی دولت سے مالا مال کرنے کے علاوہ بے پناہ علمی اور جسمانی صلاحیتوں سے نواز دیا۔ سورۂ جن میں اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ان احساسات کو بیان فرمایا ہے جو پہلی بار قرآن کو سن کر ان کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے، پھر اسی سورت کی آیات ۸ اور ۹ میں اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ اعتراف نقل کیاہے کہ وہ پہلے فضائے آسمان میں کچھ سن گن لینے کے لیے پرواز کیا کرتے تھے، پھر ان کی اس پرواز کو روکنے کے لیے سخت پہرے دار مقرر کر دیے گئے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْنَاہَا مُلَِٔتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًاo وَاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِعْ الْآنَ یَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَصَدًا﴾ (الجن: ۸۔۹) ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اسے سخت پہرے داروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم پہلے آسمانوں میں کئی جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے، تو جو اب سننے کا ارادہ کرتا ہے وہ اپنی گھات میں ایک چمکدار شعلہ پاتا ہے۔‘‘ سورۂ شعراء کی آیت نمبر ۱۹۳ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ قرآن کو نازل کرنے والے ’’روح الامین‘‘ ہیں ۔ پھر آیت ۲۱۰۔۲۱۲ تک میں یہ بیان فرمایا ہے کہ نہ تو قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی حصہ ہی ہے اور نہ ہی یہ ان کی قدرت ہی میں تھا، ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہٖ الشَّیَاطِینُo وَمَا یَنْبَغِیْ لَہُمْ وَمَا یَسْتَطِیعُوْنَo اِِنَّہُمْ عَنْ السَّمْعِ