کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 189
زیادہ امین اور دقت پسند تھے، اگر راویوں کی جرح وتعدیل مین ان میں سے معدودے چند افراد سے فرد گزاشتیں ہو گئی ہیں تو تین صدیوں میں پائے جانے والے ناقدین کو مطعون قرار دینا حقائق کا انکار ہے۔ صحابہ کے بعد تابعین، تبع تابعین، اور تبع تبع تابعین کے محدثین اور ناقدین حدیث اپنے عقیدہ وعمل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیرو تھے متقدمین فقہاء بھی انہی کے مانند تھے، لیکن تیسری صدی کے بعد فقہاء کا عقیدہ وعمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا عقیدہ وعمل نہیں رہا، بلکہ اس میں معتزلہ، متکلمین، خوارج اور صوفیا کے عقائد بھی داخل ہو گئے، لیکن محدثین ہمیشہ قرآن وحدیث سے ماخوذ عقائد پر قائم رہے اس طرح اس دین اور اس کی خالص اور بے آمیز تعلیمات اور دین کے دوسرے بنیادی شرعی ماخذ، حدیث کے محافظ، پاسبان اور خادم یہی محدثین رہے ہیں اور رہیں گے۔ امین احسن اصلاحی نے سند کے دوسرے خلا کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’سند کی تحقیق میں دوسرا خلا جرح وتعدیل کے کام کی نزاکت سے پیدا ہوتا ہے، پھر ہر محقق یہ نہیں جانتا کہ جرح کس چیز پر ہونی چاہیے اور تعدیل کس چیز کی ہونی چاہیے، یعنی یہ جاننا کہ کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے متقضیات میں سے ہیں ہر شخص کا کام نہیں ہے، کردار کی اساسات کیا ہیں ، بدکرداری کی بنیادیں کیا ہیں ، یہ چیزیں اتنی آسان نہیں کہ ہر خاص وعام اس کا کماحقہ ادراک کر سکے اس بے خبری کی مثالیں ماضی میں رہی ہیں اور خود مشائخ نے ان کا تذکرہ کیا ہے، موجودہ دور کے غلوئے عقیدت ونفرت سے اس مشکل کا ایک سرسری اندازہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘[1] بِس کی گانٹھ: یہ عبارت سند میں دوسرے خلا یا میرے الفاظ میں دوسرے جھول کی تمہید ہے جو درحقیقت بس کی گانٹھ ہے جس میں اصلاحی صاحب نے اپنے مقدور بھر نہایت چالاکی اور عیاری کے ساتھ محدثین کے علم جرح وتعدیل کے خلاف اپنے مسموم افکار کو سمیٹ کر بند کر دیا ہے اور اس علم کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ وہ نا ممکن الوقوع نظر آئے اور انسانی بس میں نہ ہونے، یا انسانی بس سے باہر ہونے کی وجہ سے راویوں کی جرح وتعدیل سے متعلق علمائے رجال کے تحقیقی عمل کو مسترد کر دینے یا ناقابل اعتبار قرار دینے کی راہ ہموار ہو جائے۔ جرح وتعدیل مشکل ہے نا ممکن نہیں : میں اوپر یہ عرض کر چکا ہوں کہ روایت حدیث کے ساتھ ہی نقد حدیث کا عمل بھی شروع ہو گیا تھا، اور اس میدان لق ودق میں اللہ کے جو صالح بندے اترے تھے وہ اپنے عقیدہ وعمل کی سلامتی کے ساتھ اس منصب کے مکمل اہل تھے وہ حدیث رسول کی روایت کرنے والوں کی جرح وتعدیل کے لیے اس لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوئے تھے کہ اس سے ان کی
[1] ص: ۹۴