کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 188
راویوں کے کوائف حتمی اور قطعی نہیں ہیں ۔ اگر اصلاحی صاحب نے انہی حافظ خطیب بغدادی کی کتاب: ’’الرحلۃ فی طلب الحدیث‘‘ کا بھی مطالعہ کر لیا ہوتا تو ان کے قلم سے مذکورہ بالا باتیں نہ نکلتیں۔ امام ابن ابی حاتم کی کتاب الجرح والتعدیل، امام عبداللہ بن عدی کی الکامل، امام ذہبی کی میزان الاعتدال، اور حافظ ابن حجر کی لسان المیزان میں راویان حدیث کی جو جرح وتعدیل ہے وہ سابق ائمہ فن کے اقوال پر مبنی ہے جس طرح ابن منطور نے لسان العرب میں اور فیروز آبادی نے القاموس المحیط میں الفاظ کے جو معانی لکھے ہیں ، جو محاورے، امثال اور اشعار نقل کیے ہیں وہ قدیم کتابوں سے ماخوذ ہیں ان کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ہیں ۔ سند کا دوسرا خلا: اس عنوان کے تحت میں امین صاحب کی عبارت نقل کرنے سے پہلے دو اہم باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں : ۱۔ ایک ہی عصر اور زمانے میں پائے جانے والے اہل فن کے درمیان معاصرانہ چشمک کا پایا جانا باعث تعجب نہیں ہے، بعض ’’نقاد رجال‘‘ نے اپنے معاصر بعض راویان حدیث کی جو جرح کی ہے۔ دوسرے محدثین اس سے غافل نہیں رہے ہیں ، بلکہ انہوں نے دوسرے ناقدین فن کے اقوال کا بھی مجروح راوی کے حق میں مطالعہ کیا ہے اور انہوں نے تمام اقوال کے درمیان غیر جانبدارانہ موازنہ کر کے یہ معلوم کر لیا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں کس کی جرح حقیقی ہے اور کس کی معاصرانہ چشمک ہے؟ ۲۔ انسان بلاشبہ فرشتہ نہیں ہے اور اس کی رائے اور حکم میں اس کے ذوق اور پسند کا غلبہ اور تاثیر ہوسکتی ہے اور بشری کمزوری کی وجہ سے وہ کسی کو ثقہ اور کسی کو ضعیف قرار دے سکتا ہے، لیکن ایک ہی دقت میں تمام ناقدین کا اس بشری کمزوری اور اس غلبہ ذوق وپسند سے موصوف ہونا ناممکن ہے، ورنہ پھر حق کا بول بالا نہیں رہ جائے گا اور شیطان کا راج قائم ہو جائے گا، پھر انسان کے فرشتہ نہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ پوری جنس بشری شیطان صفت بن گئی ہے یہ حکم تو عام انسانوں پر لگانا صحیح نہیں تو پھر ان انسانوں پر لگانا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے جن کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے دوسرے بنیادی شرعی ماخذ کی حفاظت فرمائی، اور اپنے آخری اور محبوب نبی ورسول کی سیرت پاک کی ایک ایک جزئیہ کی حفاظت فرمائی، ۱۴ سے زیادہ صدیاں گزر جانے کے باوجود پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل، پھر انہی نفوس قدسیہ کی محنتوں ، شب بیداریوں اور صحیح کو نا قابل اعتبار سے الگ کرتے رہنے اور چھانٹتے رہنے سے محفوظ ہے۔ محدثین اور ناقدین حدیث دونوں بلاشبہ بشر تھے اور بالقوۃ بشری کمزوریوں سے موصوف تھے، لیکن بالفعل وہ ہر دور میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ پاکباز، سب سے زیادہ معصیت سے دور، نقل معلومات اور خبر میں سب سے