کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 185
عجیب بات یہ ہے کہ اصلاحی صاحب نے حدیث کی سند کے بارے میں اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے انہی خیالات کا اظہار بدنام زمانہ منکر حدیث، بلکہ منکر اسلام محمود ابوریہ اپنی کتاب: ’’أضواء علی السنۃ المحمدیۃ‘‘ میں کر چکا ہے دونوں میں اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ ابوریہ اصلاحی صاحب کے مقابلے میں زیادہ جری ہے اور بعض صحابہ تک کو گالی دینے سے احتراز نہیں کرنا، لیکن اصلاحی صاحب کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایک مفسر قرآن اور داعی کی حیثیت سے ان کا ’’بھرم‘‘ بھی قائم رہے اور وہ حدیث کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں کو مسموم بھی کر جائیں۔ اس زہر آلود عبارت کی غلط باتوں کو آشکارا کرنے سے پہلے اپنے قارئین کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کر دینا چاہتا ہوں کہ موصوف محدثین کی محنتوں اور جاں فشانیوں کا ذکر تو خوب کرتے ہیں ، لیکن ان کے علم وفضل اور حفاظت حدیث کی راہ میں ان کے اخلاص وایثار کا بھول کر بھی ذکر نہیں کرتے۔ صحیح اور ضعیف حدیثوں کے مجموعی راویوں کی تعداد جو ریکارڈ میں ہے وہ بمشکل تیس ۳۰ ہزار ہوگی، صحابہ کرام کے علاوہ ایسی صورت میں ان کو ’’لاکھوں ‘‘ کی تعداد میں دکھانا محض یہ ثابت کرنے کے لیے ہے کہ محدثین نے اتنی بڑی تعداد میں راویان حدیث کے بارے میں اطمینان بخش تحقیق نہیں کی ہے، بلکہ گھر بیٹھے ان کو ثقہ اور ضعیف قرار دے ڈالا ہے۔ پھر انہوں نے دوسری مبالغہ آرائی یہ کی ہے کہ راویان حدیث کو ’’نقاد حدیث‘‘ سے ہزاروں میل کی دوری پر دکھایا ہے، تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ نقاد حدیث کے لیے اتنی لمبی مسافتوں کا طے کرنا نا ممکن تھا، لہٰذا نہوں نے راویوں کی ثقاہت وعدم ثقاہت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی نہیں تھا، خیالی تھا۔ میں عرض گزار ہوں کہ عصر تابعین اور تبع تابعین میں حدیث کے مراکز درج ذیل شہر تھے: (۱) مدینہ منورہ (۲) مکہ مکرمہ (۳) کوفہ (۴) بصرہ (۵) شام (۶) مصر (۷) یمن (۸) جرجان (۹) قزوین (۱۰) خراسان (۱۱) مراکش اور اندلس۔ مذکورہ مقامات، مغرب عربی، مراکش اور تیونس اور اندلس کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور نہیں تھے۔ پھر جو محدثین ان مراکز کا سفر حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے اور نقاد راویوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے کرتے تھے وہ دسیوں سالوں پر پھیلا ہوا تھا۔ صحابہ کی عدالت تو محل بحث نہیں تھی، لیکن طبقۂ تابعین اور ان کے بعد کے طبقوں کے راویان حدیث کی عدالت محل بحث تھی، اور عصر صحابہ کے بعد ہی حدیث کی سند معلوم کرنے کا عمل شروع ہو گیا تھا اور سب سے پہلے جن محدثین نے حدیث کی سند کے بارے میں سوال کرنا شروع کیا وہ عامر بن شراحیل بن عبد بن ذی کبار شعبی (۱۹۔۱۰۴ھ) اور محمد بن سیرین (۳۳۔۱۱۰) ہیں ، راویوں کے نقد وتحقیق کے سلسلے میں جن دوسرے محدثین کے ناموں کا ذکر ملتا ہے وہ حسن بصری (۲۱۔۱۱۰ھ) سعید بن جبیر (۲۶۔۹۵ھ) اور ابراہیم نخعی (۴۷۔۹۶ھ) ہیں ، گویا دوسرے لفظوں میں روایت حدیث کے ساتھ نقد رجال کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔