کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 184
سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مستقل تشریعی حیثیت بھی حاصل تھی، اور قرآن میں ہر حکم کے ہونے کی بات تو منکرین کہتے ہیں یا وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف کتاب اللہ کا شارح مانتے ہیں اور حدیث کی مشروط تشریعی حیثیت کے قائل۔ حقیقت یہ ہے کہ جن حدیثوں کی سند بے حد ضعیف، منکر یا موضوع ہے یا جن کی کوئی سند ہی نہیں ان کا متن اور مضمون بھی نا قابل اعتبار ہے، صحیح حدیثوں کی طرح ضعیف، منکر اور موضوع حدیثیں بھی ریکارڈ میں ہیں ۔ جو لوگ حدیث کے متن کی صحت جانچنے کا نعرہ لگاتے ہیں ان کی اکثریت منکر حدیث ہے اور قرآن وحدیث میں تعارض اور بعض حدیثوں کے مخالف عقل ہونے کا دعویٰ یہی لوگ زیادہ کرتے ہیں سابقہ صفحات میں اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کر چکا ہوں ، یہاں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ تو قرآن وحدیث کی نصوص سمجھتے بھی نہیں ہیں تو پھر دونوں میں تعارض کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں اور حدیث کے متن میں غلطی کا ادراک کس طرح کر سکتے ہیں اصلاحی صاحت تو مفسر قرآن ہونے کے باوجود قرآنی تعبیرات کے لذت آشنا نہیں تھے حدیث کا مطالعہ تو انہوں نے ایک ناقد، بلکہ معترض کے طور پر کیا تھا۔ سند کا پہلا خلا: اصلاحی صاحب فرماتے ہیں : سند کی تحقیق میں جو خلا باقی رہ جاتے ہیں وہ معمولی غور وتدبر سے سمجھ میں آ جاتے ہیں ، مثلا: پہلا خلا اس میں یہ ہے کہ اپنے تعلق اور علاقے سے بعید، ہزاروں ، بلکہ لاکھوں آدمیوں کے عقیدہ وکردار، ان کے علم وعمل اور ان کے تعلقات ومعاملات کی ایسی تحقیق کہ ان کے متعلق یہ طے کیا جا سکے کہ علم رسول کے حمل ونقل کے باب میں ان پر اطمینان کیا جا سکتا ہے یا نہیں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بے شک محدثین نے اس میدان میں بڑی جاں فشانیاں کی ہیں ، لیکن یہ کام ہے بہت مشکل، اس نوعیت کی تحقیق اگر ہم اپنے گاؤں ، یا قصبہ، یا شہر کے لوگوں کے بارے میں کرنا چاہیں تو چنداں آسان نہیں چہ جائے کہ ہزاروں میل دور کے لوگوں کے بارے میں جو مختلف ادوار میں پھیلے ہوئے ہوں اس قسم کی تحقیق کے بارے میں محتاط رائے یہ ہو سکتی ہے کہ فی الجملہ ہمیں ان لوگوں کے کوائف معلوم ہیں اور اب ان کی شخصیات مجہول نہیں رہیں ، ان کے بارے میں کسی رائے کو حتمی یا قطعی کہنا مشکل اور غالباً اپنی معلومات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے۔‘‘ [1] اصلاحی کی غلط بیانیاں : جب کوئی شخص کسی کے بارے میں یا کسی چیز کے بارے میں ’’بد نیت‘‘ ہوتا ہے تو دوسروں کو اس سے متنفر کرنے کے لیے اس کی ایسی تصویر کشی کرتا ہے جو صداقت سے عاری ہوتی ہے، پھر وہ اپنی اس من گھڑت، خود ساختہ اور جھوٹی تصویر کو دکھا کر لوگوں سے کہتا ہے کہ کیا ایسا انسان بھی پایا جا سکتا ہے اور ایسی چیز بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔
[1] ص: ۹۳