کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 183
ہے، کیونکہ اولا تو ’’خبر‘‘ میں اس کا متن بھی داخل ہے ثانیا طبقہ صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین اور تبع تبع تابعین میں سب لوگ ’’عدل‘‘ نہیں تھے، لہٰذا راویان حدیث کے حالات و کوائف کو معلوم کر کے جہاں ایسے لوگوں کو الگ کیا گیا جو عدالت سے موصوف تھے وہیں ان کی دی ہوئی خبروں کے ’’متن‘‘ پر غور کر کے یہ معلوم کیا گیا کہ یہ زبان نبوت سے نکلی ہیں ۔ چونکہ صحابہ میں کوئی فاسق نہیں تھا اس لیے یہ یقین حاصل کر لینے کے بعد کہ اس خبر کا راوی صحابی ہے اس کو قبول کر لیا گیا، اگر اس صحابی نے خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے دی ہے تو اس کو ’’مرفوع حدیث‘‘ قرار دے کر شرعی حجت مان لیا گیا اور اگر صحابی نے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا ہے تو اس کو قول صحابی یا موقوف کا نام دے دیا گیا، الا یہ کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا کوئی واقعہ بیان کیا ہو یا آپ کے کسی عمل کی خبر دی ہو یا یہ کہا ہو کہ: ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا اور ایسا کرتے تھے‘‘ وغیرہ تو یہ بھی مرفوع حدیث ہے۔ سند حدیث کے ساتھ متن حدیث کی تحقیق کرنے کا ذکر ’نقاد رجال‘‘ نے کیا ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((ولا یُستدل علی أکثر صدق الحدیث وکذبہ إلا بصدق المُخبِر وکذبہ، إلا فی الخاص القلیل من الحدیث، وذلک أن یستدل علی الصدق والکذب فیہ بأن یحدث المحدث مالا یجوز أن یکون مثلہ، أوما یخالفہ ماہو أثبت وأکثر دلالاتٍ بالصدق منہ۔)) ’’حدیث کے صدق وکذب کی کثرت پر صرف مخبر (خبر دینے والے) کے صدق وکذب سے استدلال کیا جاتا ہے۔ سوائے نہایت قلیل اور خاص حدیثوں کے کہ ان میں صدق وکذب پر اس طرح استدلال کیا جاتا ہے کہ حدیث بیان کرنے والے نے ایسی حدیث بیان کی جس کے مانند ہونا ممکن نہیں ، یا اس سے زیادہ ثابت یا اس سے زیادہ صدق کی دلالتیں رکھنے والی حدیث اس کے خلاف ہے۔‘‘ [1] علم جرح وتعدیل کے امام ابو محمد عبدالرحمن ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((ویقاس صحۃ الحدیث بعدالۃ ناقلیہ وأن یکون کلاماً یصلح أن یکون من النبوۃ۔)) ’’حدیث کی صحت کا اندازہ اس کے نقل کرنے والوں کی عدالت سے کیا جاتا ہے اور اس بات سے کہ یہ کلام نبوت ہونے کے قابل ہے۔‘‘ [2] درحقیقت، جیسا کہ امام شافعی نے فرمایا ہے ایسی حدیثیں بہت کم ہیں جن کی سند بالکل صحیح ہو اور متن صحیح نہ ہو، اگر ایسا بعض حدیثوں میں ہے تو یا تو اس کی سند میں کوئی مخفی علت ہوگی یا حدیث کا مضمون ایسا ہوگا جو گہرے غورو تدبر کا متقاضی ہوگا۔ یا اس میں کوئی پیشین گوئی ہوگی یا اس میں کوئی ایسا حکم بیان ہوا ہوگا جو قرآن میں نہیں آیا ہے اور خود قرآن
[1] الرسالہ: ۲۶۵۔ ۲۶۶ [2] مقدمہ الجرح والتعدیل ص: ۳۵۱۔