کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 182
۱۲۹ تک تدبر قرآن کے ترجمہ وتفسیر پر ان کا استدراک ہے، اور یہ بھی معدودے چند آیتوں کے ترجمہ وتفسیر پر۔ میں نے اس واقعہ کا تذکرہ محض اس غرض سے کیا ہے کہ ’’جدید طبقہ‘‘ میں حدیث بیزاری کا جذبہ پیدا کرنیو الے امین احسن اصلاحی کے تفسیری کارنامے سے بھی قارئین واقف رہیں جو تفسیر ان کی حاصل زندگی تھی، حدیث کے میدان میں تو وہ ایک معترض کے بھیس میں اترے تھے۔ پھر حدیث اور متعلقات حدیث کا جو مطالعہ کیا وہ حدیث کے خلاف دلائل کی تلاش میں ۔ میں نے اوپر ’’تدبر حدیث‘‘ کے دائرہ میں ان کے جن افکار ونظریات کا جائزہ لیا ہے، اور صحیح بخاری کی بعض حدیثوں پر ان کے اعتراصات کا جو جواب دیا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’مطالعہ حدیث‘‘ میں وہ مخلص نہیں تھے اتنے بھی نہیں جتنے محرف تورات وانجیل کے مطالعہ میں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ ایک مسلمان مفسر قرآن اور داعی کے بھیس میں ’’مستشرق تھے۔‘‘ اصلاحی صاحب نے حدیث کی سند کی راہ سے بھی محدثین کو نشانہ بنایا ہے اور ’’سند کی عظمت اور اس کے بعض کمزور پہلوکے تحت انہوں نے حدیث کی سند میں ’’چار خلا‘‘ دکھائے ہیں میں سند حدیث پر ان کے اعتراصات کا جائزہ ’’سند میں جھول‘‘ کے عنوان کے تحت لوں گا، وہ سند کی عظمت واہمیت اجاگر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’سند کی اہمیت سے انکار کی کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن حدیث کے بعض غالی حامیوں کا یہ خیال ہے کہ کسی حدیث کی صحت کے ثبوت کے لیے مجرد اس کی سند کا علم اصول کے معیار پر پورا ہونا کافی ہے، یعنی ان کے نزدیک صحت حدیث کے لیے صرف سند کی صحت اور اس کا قابل اعتبار ہونا فیصلہ کن امر ہے، ہمارے نزدیک ان کا خیال صحیح نہیں ہے، یہ غلو پر مبنی اور محض حسن ظن ہے۔‘‘ سند کے تمام محاسن، لطائف، عظمت، اہمیت اور اس کے مطابق معیار ہونے کے باوجود اس میں بعض ایسے فطری ’’خلا‘‘ رہ جاتے ہیں جن کی تلافی کے لیے ضروری ہے کہ حدیث کی صحت کو جانچنے کے لیے سند کے سوا بعض دوسرے طریقے بھی اختیار کیے جائیں مجرد سند پر اعتبار کر کے کسی روایت کی صحت اور حسن وقبح کے متعلق پوری طرح سے اطمینان نہیں کیا جا سکتا۔‘‘[1] محدثین کی نظر صرف سند پر نہیں تھی: بلاشبہ کسی خبر کی صحت وسقم کو معلوم کرنے کے لیے سند سے واقفیت بنیاد کا درجہ رکھتی ہے، اس کے بعد دوسری چیزیں آتی ہیں ، سند سے مراد خبر دینے والے یا اس کی روایت کرنے والے ہیں ، قرآن کی سورۂ حجرات کی آیت نمبر ۶ میں علیم وحکیم اللہ نے خبر کی صحت جانچنے کے لیے صرف خبر دینے والے کی صفت عدالت یا اس کی ضد ’’فسق‘‘ معلوم کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن حدیث کی عظمت واہمیت کے پیش نظر محدثین نے خبر کے متن (مخبر) کی صحت کو جانچنے پر بھی بہت زور دیا
[1] ص: ۹۲