کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 181
کیا حدیث، علم حدیث اور رجال کی کتابوں میں کسی راوی کی روایت قبول کرنے کے لیے عدالت اور حافظہ کی متانت کے سوا کوئی اور شرط مطلوب قرار دی گئی ہے اور کیا کسی صحابی کی روایت قبول کرنے کے لیے کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس کا تعلق کن صحابہ سے ہے، یا وہ حکومت الٰہیہ کا نمایندہ ہے؟
دراصل امت کے یہ نئے مجددین اور حدیث کی شرعی حیثیت کے منکرین اسلام کے دوسرے شرعی ماخذ، حدیث کی اہمیت گھٹانے اور اس کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے دلائل اور ’’سہارے‘‘ تلاش کرنے میں بڑے طاق ہوتے ہیں اور حدیث اور متعلقات حدیث کا وہ نہایت دقت نظر سے مطالعہ کرتے ہیں ، اس لیے نہیں کہ اس سے ان کے ایمان ویقین میں قوت وگہرائی پیدا ہو، قرآنی احکام کی تفصیلات معلوم ہوں اور اپنے رسول کی سیرت وکردار، اور آپ کے اقوال وافعال کو معلوم کر کے ان کے سانچے میں اپنی زندگیاں ڈھالیں ، بلکہ، حدیث اور کتب حدیث کا مطالعہ اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے ان کو اپنے بیمار دلوں کی غذا مل سکے۔ حدیث کے نا قابل اعتبار ہونے کے دلائل مل سکیں اور پھر وہ قرآن کی من مانی تاویلیں کرنے میں آزاد ہوں۔
حدیث کی سند میں جھول:
امین احسن اصلاحی نے پاکستان میں نصف صدی کے لگ بھگ قرآن میں غورو تدبر اور اس کی تفسیر وتشریح میں گزاری اور آٹھ ضخیم جلدوں میں ’’تدبر قرآن‘‘ کے نام سے تفسیر شائع کی۔ قرآن پاک کے ترجمہ سے لے کر اس کی تفسیر تک اس ضخیم تفسیر کو جو علمی مقام ومرتبہ حاصل ہے اس کا کچھ اندازہ مولانا جلیل احسن ندوی رحمہ اللہ کی مختصر کتاب ’’تدبر قرآن پر ایک نطر‘‘ پر عبوری نظر ڈالی کر لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ سے ۱۹۶۲ء میں ، میں نے مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں پڑھا تھا اور ۱۹۶۴ء کے آغاز میں قاہرہ روانہ ہونے سے کچھ پہلے ان سے ربط وتعلق نہیں رہ گیا تھا، لیکن قاہرہ پہنچنے کے بعد استاد وشاگرد کا یہ تعلق بحال ہو گیا تھا اور قاہرہ کے دس ۱۰ سالہ قیام تک قائم رہا تھا۔
سعودی عرب کی آمد کے بعد مولانا ندوی کی خیریت اور ان کی علمی سرگرمیوں کا علم تو ہوتا رہا لیکن ان سے خط وکتابت کا سلسلہ نہیں تھا۔
مولانا جلیل احسن ندوی جسمانی طو پر مفلوج تھے، لیکن ان کا دل اور دماغ دونوں محفوظ تھا، بلکہ جسم کی ساری توانائیاں انہیں دونوں میں سمٹ آئی تھیں ۔
مولانا ندوی کو فہم قرآن اور عربی زبان وادب میں نہایت اعلیٰ مقام حاصل تھا، بایں ہمہ وہ حد درجہ منکسر المزاج اور خلیق تھے اور قرآن میں غورو تدبر کے حوالہ سے ہمیشہ طالب علما نہ زندگی گزاری، اثناء درس بھی نہ وہ خود کسی آیت کی تفسیر کرتے اور نہ کسی مفسر کے کسی تفسیری قول پر تنقید کرتے، لیکن صاحب تدبر قرآن کی بھیانک غلطیوں نے ان کو ضعف وپیروی کے مرحلے میں قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
’’تدبر قرآن پر ایک نظر‘‘ پوری نہیں ہو سکی، اور ان کا انتقال ہو گیا رحمہ اللہ رحمۃ وّاسعۃ ‘‘ سورۂ اعراف کی نمبر