کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 180
آپ نے بار بار ایک گھڑی کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کا ذکر کیا ہے اور انداز بیان سے اس ’’دیکھنے‘‘ کا استخفاف کیا ہے اور اس کی اہمیت کو گھٹانے کی سعی مذموم کی ہے، کیا آپ کے ایسا کرنے کی کوئی نا قابل تردید دلیل ہے یا محض بڑ ہے جیسا کہ بڑ مارنے کی آپ کو عادت ہے۔ کسی شخص کے لیے صحابی رسول ہونے کی یہ شرط تھی کہ وہ آپ پر صدق دل سے ایمان لایا، اس پر قائم رہا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کیا، آپ کا دعویٰ ہے کہ صحابی ہونے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عرصہ رہنا ضروری تھا، آپ سے سوال ہے کہ اس مطلوبہ عرصہ کی ’’لمبائی چوڑائی‘‘ کتنی تھی، ایک گز، دو گز، دس گز، ایک دن، دس دن، ایک ماہ، دس ماہ، ایک سال، دو سال یا؟ پھر کیا قرآن وحدیث، سیرت پاک اور سیر صحابہ میں کوئی ایسا صحیح واقعہ ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ایمان لایا اور چلا گیا، پھر اسے دوبارہ آپ سے ملنے کا موقع نہیں ملا وہ صحابی نہیں تھا؟ ایک صحیح حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ کو مخاطب بناتے ہوئے فرمایا: ((انتم أصحابی وإخواننا الذین لم یأتوا بعد۔)) ’’تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔‘‘ [1] کیا آپ نے شرف صحابیت کے حصول کی جو شرائط بیان فرمائی ہیں وہ ان تمام لوگوں میں موجود تھیں جن کو آپ نے اپنے اصحاب کا لقب دیا ہے اور کیا آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ نے جن خوش نصیبوں کو ’’میرے اصحاب‘‘ فرمایا ہے ان سب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت اٹھائی تھی، یا وہ صدق ایمانی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت سے تو مشرف تھے، لیکن بقیہ صفات میں ان کے درمیان درجات تھے؟ کیا قرآن وحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں کے لیے کوئی ’’تربیتی کورس‘‘ یا وہ ’’آزمائشی مدت‘‘ متعین تھی جس میں کامیابی کے بعد ہی کسی کو صحابی کا لقب ملتا تھا، یا وہ شہادتین کا اقرار کرتے ہی صحابہ کی مقدس جماعت میں شامل ہو جاتا تھا؟ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آنے والی اہل ایمان خواتین (مہاجرات) کا امتحان لینے کا حکم دیا گیا ہے (ممتحنہ: ۱۰) یہ حکم خاص مقصد اور خاص حالات کے لیے دیا گیا تھا۔ اگر شرف صحابیت کے حصول کے لیے بھی ایسی کوئی آزمائش ضروری ہوتی تو اللہ ورسول نے ایمان لانے والے ہر شخص کے حق میں اس کا حکم دیا ہوتا۔ کیا حدیث اور سیرت کی کتابوں میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ بیان ہوا ہے کہ کسی صحابی کی حدیث یا خبر کو محض اس وجہ سے مسترد کر دیا گیا ہو کہ اس نے خدمت نبوی میں کوئی خاص عرصہ نہیں گزارا تھا؟
[1] مسلم: ۲۲۹