کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 179
بعض اوصاف بیان ہوئے ہیں یا صحابہ کے بعض طبقوں کے درجات بیان ہویء ہیں ۔ لہٰذا ان آیتوں کی روشنی میں ایک ایسے شخص کو شرف صحابیت سے عاری قرار دینا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا دل کی پوری آمدگی کے ساتھ آپ پر ایمان لایا اور آپ کی تعلیمات لے کر چلا گیا۔ قرآن سے غلط استدلال کرنا اور صحابہ کے مقام و مرتبہ کو گھٹانا ہے۔ اصلاحی صاحب نے اپنے دعویٰ میں وزن پیدا کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تھوڑی دیر کے لیے دیکھنے والے خوش نصیب، یا آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے والے سعادت مند کے ذکر کے ساتھ ’’ایمان‘‘ کا بھول کر بھی ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ مختصر مدت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضری دینے والے کو ’’منافقین‘‘ سے تشبیہ دینے سے بھی احتراز نہیں کیا ہے، جس سے صحابہ کے حق میں ان کی ’’بد نیتی‘‘ عیاں ہوتی ہے اور یہ ساری سعی مذموم انہوں نے صرف اس لیے کی ہے کہ بعض مخصوص صحابہ، یا حیثیت عرفی کے مالک صحابہ، یا ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے نمایندے صحابہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کی ’’حدیث واحد‘‘ یا ’’خبر واحد‘‘ کو نا قابل اعتبار قرار دے سکیں ۔ انہوں نے اس بات کے تحت جو مختلف اقوال نقل کیے ہیں ان میں ایک قول عاصم احول رحمہ اللہ کا بھی شامل ہے جو عبداللہ سرجس رضی اللہ عنہ سے صحابیت کی نفی کا حامل ہے، عاصم احول کے الفاظ ہیں : ((قدرأی عبداللّٰہ بن سرجس رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ، غیرأنہ لم یکن لہ صحبۃ۔)) ’’عبداللہ بن سرجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینا دیکھا، لیکن ان کو صحبت نہیں حاصل تھی۔‘‘ [1] اس قول میں ’’قدرأی…‘‘ تو خبر ہے جو ثابت ہے اور مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کی یہ صراحت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کے ساتھ روٹی اور گوشت کھایا اور آپ کے دونوں کندہوں کے درمیان موجود ’’مہرنبوت‘‘ بھی دیکھی۔[2] لیکن عاصم احول کا یہ دعویٰ: ’’لم یکن لہ صحبۃ‘‘ محض ان کی رائے ہے جس کی انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی ہے، لہٰذا نا قابل قبول ہے۔ اصلاحی سے ایک مطالبہ: جمہور محدثین اور اہل اصول کا مسلک یہ ہے کہ جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اگرچہ ایک گھڑی ہی کے لیے سہی تو وہ صحابی ہے، یہی امام احمد، امام بخاری اور علی بن مدینی وغیرہ کا بھی قول ہے۔ آپ نے عاصم احول کے قول کو حقیقت پسندانہ قول قرار دیا ہے[3] کیا میں آپ سے اور آپ کے ہمنوا دوسرے لوگوں سے یہ مطالبہ کر سکتا ہوں کہ آپ یا وہ اپنی اس تائید کا سبب، بلکہ دلیل بتائیں ۔
[1] مسند امام أحمد نمبر: ۲۱۰۵۵، الکفایۃ ص:۱۸۹ ج: ۱، العلل ومعرفۃ الرجال نمبر: ۱۷۷۰ [2] صحیح مسلم: ۲۲۴۶ [3] ص: ۸۵