کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 178
فأسلم، وعقل أمرالدین ورضیہ، فہو عند نا ممن صحب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ولو ساعۃً من نہار، ولکن أصحابہ علی طبقاتہم وتقدمہم فی الإسلام۔)) ’’میں نے اہل علم کو کہتے ہوئے دیکھا ہے:ہر وہ شخص جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوغت میں دیکھا اور اسلام لایا او ر دین کو سمجھا اور اس سے راضی رہا تو ہمارے نزدیک اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیت کا شرف حاصل تھا۔اگرچہ اس نے دن کی ایک گھڑی ہی کے لیے آپ کو دیکھا ہے، لیکن ان کے درجات بھی ہیں اور اسلام لانے میں پیش قدمی کی فضیلت بھی بعض کو حاصل ہے۔‘‘ [1] یہ موقوف روایت سند کے اعتبار سے بے حد ضعیف ہے، لیکن اس کا متن صحیح ہے، اس موقوف روایت کا راوی، محمد بن عمر واقدی متروک ہے۔ [2] اور اس کا شیخ طلحہ بن محمد بن سعید بن مسیب مجہول اور غیر معروف ہے؛ امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم فرماتے ہیں : اس نے اپنے دادا سے حدیث راویت کی ہے اور اس سے عبدالملک بن قریب اصمعی نے، میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا ہے: میں طلحہ بن محمد بن سعید بن مسیب کو نہیں جانتا۔‘‘ [3] سعید بن مسیب سے منسوب قول بھی ضعیف ہے: امین احسن اصلاحی نے سیّد التابعین سعید بن مسیب سے جو قول منسوب کیا ہے، یا ان سے منسوب جو قول نقل کیا ہے اس کی نسبت ان سے صحیح نہیں ہے؛ اس کی سند میں وہی دونوں راوی شامل ہیں جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب قول کی سند میں شامل ہیں ۔ اصلاحی کی سعیٔ مذموم: امین احسن اصلاحی صاحب نے صحابہ اور صحابیت کے باب کے تحت جو کچھ فرمایا ہے اس سے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث میں سب کا درجہ یکساں نہیں تھا، یا دوسرے لفظوں میں ہر صحابی کی حدیث دینی حجت نہیں تھی، کیونکہ ان کے نزدیک شرف صحابیت کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت درکار تھی۔ اس بات کو انہوں نے مختلف انداز میں بار بار دہرایا ہے اور اپنے دعوے کی تائید میں قرآن پاک کی چند آیتوں سے استدلال بھی کیا ہے، لیکن جس طرح تدبر قرآن میں ان کے بیشتر قرآنی استدلال بے محل ہیں اسی طرح یہاں بھی ان کی ذکر کردہ آیتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی شخص کے صحابی رسول ہونے کی یہ شرط ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت تربیت میں ایک عرصہ رہا ہو، آپ سے دروس لیے ہوں ۔ آپ کی نصرت وحمایت کی ہو وغیرہ، ان آیتوں میں یا تو عام صحابہ کے
[1] الکفایہ، ص: ۱۹۰۔۱۹۱، ج: ۱ [2] التقریب، ص: ۴۳۳ ترجمہ: ۶۱۷۵ [3] الجرح والتعدیل ص: ۴۴۹، ج ۴، ترجمہ: ۷۲۱۲