کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 177
ترجمہ لکھا ہے اس کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے: ضحاک بن مزاحم کو تفسیر کے حوالہ سے شہرت حاصل ہے، رہیں ابن عباس، ابو ہریرہ اور دوسرے تمام لوگوں سے اس کی مرویات تو وہ سب محل نظر ہیں ۔‘‘[1] حدیث کا متن: اس حدیث کا متن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جھوٹ ہے جس کے دلائل حسب ذیل ہیں : ۱۔ اس میں قرآن وحدیث پر عمل کی جو ترتیب بیان کی گئی ہے وہ متاخرین فقہائے احناف کی گھڑی ہوئی ہے اللہ ورسول نے ان میں یہ ترتیب نہیں قائم کی ہے۔ ۲۔ قرآن میں کسی حکم کے نہ ملنے کی صورت میں حدیث سے رجوع کا دعویٰ باطل ہے، کیونکہ قرآن کے بیشتر احکام پر حدیث کے بغیر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ۳۔ حدیث میں ’’سنۃ ماضیۃ‘‘ کی تعبیر حدیث کی شرعی حیثیت کے منافی ہے، حدیث اور سنت اپنی ذاتی قوت سے حجت ہے، لوگوں کے اس پر عمل کرنے سے نہیں ۔ جبکہ یہ جھوٹی روایت یہ بتا رہی ہے کہ جو سنت جاری ہو اور جس پر عمل ہو رہا ہو اس کو طریق عمل بنایا جائے۔ ۴۔ متبوع اور مقتدی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کوئی بھی صحابی یا تابعی یا امام ومرشد متبوع ومقتدی نہیں ، البتہ صحابہ کرام اور اصحاب رشد وہدایت کا طریقہ قابل اتباع ہے، کیونکہ یہ طریقہ کتاب وسنت کی پیروی سے عبارت ہے۔ ۵۔ اقوال صحابہ ماخذ شریعت نہیں ۔ ۶۔ حدیث کا آخری فقرہ ہے ’’واختلاف أصحابی لکم رحمۃ‘‘ اور میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے لیے رحمت ہے۔ اصلاحی صاحب نے یہ فقرہ حذف کر دیا ہے۔ حدیث کا مذکورہ بالا فقرہ جھوٹ ہے حدیث نہیں ہے، قرآن پاک اختلاف کی مذمت سے بھرا ہوا ہے۔ یہ یہودیوں کی نمایاں صفت ہے، اسلام میں جو گمراہ فرقے پیدا ہوئے، کثرت اختلاف ان کی شناخت ہے، سب سے زیادہ اتفاق واتحاد محدثین کے یہاں رہا ہے، عقائد کے مسئلہ میں تو صحابہ کرام اور محدثین میں کبھی کوئی اختلاف ہوا ہی نہیں ، دراصل اختلافات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ذوق اور رائے کو شرعی حیثیت دے دی جاتی ہے، نصوص کی پابندی اتفاق واتحاد کو مستحکم رکھتی ہے۔ دوسری حدیث: امین صاحب نے دوسری جو حدیث نقل کی وہ ’’موقوف‘‘ ہے یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس کے الفاظ ہیں : ((رأیت أہل العلم یقولون: کل من رأی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وقد أدرک الحلم
[1] ص: ۱۵۲، ج: ۵