کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 176
ہر حدیث میں جس کی سند کی کڑیاں اس کے راویوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان متصل اور ملی ہوئی ہوں ، اس پر اس کے راویوں کی عدالت ثابت ہونے کے بعد عمل فرض ہے۔ سوائے اس صحابی کے جس نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہے، اس لیے کہ صحابہ کی عدالت، قرآن میں اللہ کے ان کو عدل قرار دینے، ان کی پاکیزگی کی خبر دینے اور ان کو پسندیدہ کہنے کی وجہ سے ثابت اور معلوم ہے۔ [1] بغدادی کی اس عبارت کامطلب یہ ہے کہ ’’صحابی راوی ‘‘کی عدالت محل بحث نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو ’’ عدل‘‘ قرار دینے کی وجہ سے ان کی عدالت ثابت ہے۔ پہلی حدیث: ((عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، قال: قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وسلم: مہما أوتیتم من کتاب اللّٰہ، فالعمل بہ لا عذر لأحدکم فی ترکہ، فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ فسنۃ منی ماضیۃ، فان لم تکن سنۃ منی ماضیۃ، فما قال أصحابی، إن أصحابی بمنزلۃ النجوم فی السماء، فأیہما أخذتم اہتد یتم، واختلاف أصحابی لکم رحمۃ )) ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تمہیں کتاب اللہ میں سے جو حکم بھی ملا ہے اس پر عمل کرنے میں تم میں سے کوئی معذور نہیں ہے، اور اگر کتاب اللہ میں کوئی حکم نہ ہو تو میری جو سنت جاری ہے وہ اور اگر میری سنت جاریہ نہ ہو تو جو میرے اصحاب نے کہا ، یہ اس لیے کہ میرے اصحاب آسمان میں موجود ستاروں کے مانند ہیں ۔ ان میں سے تم جس کو بھی مشعل راہ بناؤ گے ہدایت پاؤ گے اور میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے لیے رحمت ہے۔‘‘ حدیث کی سند: اس حدیث کی سند بے حد ضعیف اور نا قابل اعتبار ہے، اس کا ایک راوی، جس نے یہ حدیث ضحاک بن مزاحم بلخی سے راویت کی ہے اور اس نے ابن عباس سے ان دونوں میں پہلا یعنی جو یبر ’’متروک‘‘ ہے، یحییٰ بن معین کا قول ہے: وہ دو کوڑیوں کے برابر بھی نہیں ۔ جو زجانی کہتے ہیں : اس سے وابستگی جائز نہیں ، اور نسائی اور دار قطنی نے اس کو ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ [2] ۲۔ رہاجویبر کا شیخ ضحاک بن مزاحم بلخی تو اس کی ثقاہت مختلف فیہ ہے، البتہ اس بات پر محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں تھا۔ امام عبداللہ بن عدی نے الکامل میں اس کا جو طویل
[1] ص ۱۸۰ ج: ۱ [2] میزان لاعتدال ص: ۱۶۰۔۱۶۱ ج: ۲، ترجمہ: ۲۵۲۹، تہذیب الکمال (ص: ۱۳۸ ج: ۱، تہذیب التہذیب (ص: ۱۲۳، ج: ۲) تقریب التہذیب ص: ۸۲