کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 175
نہیں اٹھائی تھی، کیا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ رہنے اور آپ کی مجلسوں میں بلا روک ٹوک طویل عرصہ تک شریک ہونے کے مواقع نہیں ملے تھے؟ آپ کی اس ٹیڑھی منطق کی رو سے تو اسے صحابہ کی صف اول میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ اصلاحی صاحب کو اس بات کا بڑا ملکہ حاصل تھا کہ وہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے حقائق میں مفید مطلب تبدیلی کر لیا کرتے تھے، صحابی کی تعریف میں ’’بحالت ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنا‘‘ بنیادی عنصر کا درجہ رکھتا ہے اور امین صاحب ’’بحالت ایمان‘‘ کو گول کرکے مجرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں جس کا قائل کوئی نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو بہت بڑا شرف قرار دینے اور صحابہ کرام کے بعض اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے کے بعد پھر وہی راگ الاپا ہے، فرماتے ہیں : ’’اگر مجرد رسول اللہ کو دیکھنا کوئی شرف ہوتا تو اس اعتبار سے مخلفین احزاب وتبوک، منافقین مدینہ، واہل بدو اور بانیان مسجد ضرار کچھ کم اس شرف کے حق دار نہ تھے۔‘‘ [1] یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو لوگوں میں مفسر قرآن، اسلامی داعی اور آخری عمر میں محدث کے القاب سے ملقب رہا ہے، لیکن اپنے غلط اور باطل نظریہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ سارے مغالطے دے رہا ہے اور صدق دل سے ایمان لانے والے کو منافقین سے تشبیہ دے رہا ہے، الاساء مایزرون۔ اصلاحی صاحب علم حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے، انہیں اپنے بلند بانگ وعادی کے باوجود صحیح حدیثوں اور نا قابل اعتبار روایتوں کو جانچنے اور پرکھنے کا کوئی علم نہیں تھا۔ ’’مبادیٰ تدبر حدیث‘‘ میں انہوں نے یہ کیا ہے کہ غورو فکر کر کے ایک باب باندھا، پھر الکفایہ کھولی اور اس میں اسی باب کو تلاش کیا اور اس میں جو جو باتیں مفید مطلب ملیں اور جو روایتیں اچھی لگیں ان کو نقل کر دیا، اور کتاب تیار ہو گئی۔ حافظ خطیب بغدادی نے ’’باب ما جاء فی تعدیل اللّٰہ ورسولہ للصحابہ وأنہ لایحتاج للسوال‘‘ اللہ ورسول کا صحابہ کو عدل اور معتبر قرار دینا اور یہ کہ ان کی عدالت محتاج سوال نہیں ۔ کا آغاز بعض قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے کیا ہے، پھر کچھ ایسی حدیثیں لائے ہیں جو بے حد ضعیف، بلکہ موضوع ہیں ، امین صاحب نے یہ کیا ہے کہ صحیح حدیثوں کو تو نطر انداز کر دیا ہے اور صحابہ کی عدالت کے بارے میں پہلی جس حدیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید میں دوسری جو حدیث لائے ہیں یہ دونوں حد درجہ نا قابل اعتبار ہیں میں ان دونوں حدیثوں کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کرنے سے پہلے اس باب کے تحت حافظ بغدادی کی تمہیدی عبارت کا ترجمہ کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قارئین کرام صحابہ کی مرویات کے بارے میں صاحب الکفایہ کی رائے سے واقف رہیں :
[1] ص: ۸۶