کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 174
حجت نہ ہونے کی دلیل میں صحابہ کی جو درجہ بندی کی ہے وہ اس غلط استدلال پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے، انہوں نے سورۃ بقرہ آیت: ۱۴۳، سورۃ فتح آیت: ۱۸، اور سورۂ حشر کی آیات ۸ اور ۹ سے استدلال کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ: ’’قرآن کے پیش نظر وہی لوگ صحابی ہیں ، جنہوں نے دین کے اختیار کرنے میں پیش قدمی کی ہے، عسرویسر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں ، اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا ہے، غزوات میں سر فروشیاں کی ہیں ، وہ لوگ پیش نظر نہیں ہیں جنہون نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کبھار دیکھ لیا ہے، اعراب کے منافقین کی تو قرآن نے اصل خرابی ہی یہی بتائی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہیں اٹھائی، اگرچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی اور اسلام کے بھی بڑی بلند آہنگی سے مدعی تھے۔‘‘[1] اصلاحی کی بدحواسی: امین اصلاحی جب اپنے غلط خیالات ونظریات کا اظہار کرتے تھے تو لگتا ہے کہ وہ ہوش وحواس میں نہیں ہوتے تھے یا اپنے قارئین کو عقل وفہم سے عاری تصور کر لیتے تھے، صحابہ کی تعریف میں دین کے اختیار میں پیش قدمی، عسرویسر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت، اللہ کی راہ میں انفاق اور غزوات میں سر فروشی وغیرہ جو گنائی ہے، تو یہ دراصل صحابہ کے بعض اوصاف حمیدہ تھے، صحت صحابیت کی شرائط نہیں اور جوں ہی کوئی خوش نصیب آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لاتا اور آپ کی زبان مبارک سے اسلامی احکام سنتا تو اسی لمحہ نور ایمان سے اس کا دل روشن ہو جاتا اور اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم کی تعمیل کا جذبۂ صادق اس کے دل میں پیدا ہو جاتا، لہٰذا اسی لمحہ وہ صحابہ کی جماعت میں داخل ہو جاتا اگرچہ اپنے صدق ایمانی کا عملی نمونہ پیش کرنے کا اس کو موقع نہ ملا ہو۔ قران وحدیث میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیت کا شرف حاصل کرنے اور صحابہ کی پاکباز جماعت میں شامل ہونے کے لیے آپ کے بیان کردہ اوصاف میں سے کسی بھی وصف کو شرط نہیں قرار دیا گیا ہے، آپ سبقت الی الاسلام کی رٹ جو بار بار لگاتے ہیں تو یہ بعض صحابہ کی فضیلت تھی، شرفِ صحابیت کے حصول کی شرط نہیں ۔ اصلاحی صاحب کی بد حواسی دیکھئے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بحالت ایمان کبھی کبھار دیکھ لینے کی اہمیت گھٹانے اور ایسے خوش نصیب کو زمرۂ صحابہ سے نکالنے کے لیے منافقین کا ذکر کر دیا اور ان کی اصل خرابی یہ قرار دے دی کہ ’’انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہیں اٹھائی‘‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت حاصل ہوتی تو وہ منافق نہیں صحابی ہوتے، جس شخص نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ قرآن کے زیر سایہ گزارا ہو کیا اس کے قلم سے اس طرح کی بات افسوسناک نہیں ہے؟ پھر قرآن میں کہاں یہ آیا ہے کہ اعراب کے منافقین کی اصل خرابی ہی یہی تھی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت
[1] ص: ۸۲۔۸۳