کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 173
صاحب احادیث واقوال میں غث وسمین اور ثابت وغیر ثابت میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اس لیے انہوں نے الکفایہ میں جو کچھ پایا اس کو جوں کا توں ، اور حرف آخر سمجھ کر نقل کر دیا، آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ میں ’’تدبر حدیث‘‘ کے بعض ابواب میں مدون اصلاحی صاحب کے بعض افکار اور نظریات کا خلاصہ نقل کر کے ان کا جائزہ لوں گا اور یہ دکھاؤں گا کہ انہوں نے دانستہ یا نادانستہ کہاں کہاں ٹھوکر کھائی ہے۔ صحابہ اور صحابیت اصلاحی کی نظر میں : میں امین صاحب کے استدلالات کا ذکر کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرام میں فرق مراتب تھا جس طرح اللہ کے رسولوں میں فرق مراتب ہے اور خود قرآن پاک سے ثابت ہے، لیکن جس طرح اللہ کا ہر رسول اپنی رسالت میں سچا تھا اور اس معاملہ میں ان کے درمیان تفریق حرام ہے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث کے مسئلہ میں تمام صحابہ سچے تھے اور اس مسئلہ میں ان کے درمیان تفریق ان کے قرآنی او صاف کے منافی ہے میں نے یہ بات پہلے ہی اس لیے صاف کر دی ہے کہ اصلاحی صاحب کے مغالطوں کو سمجھنا آسان رہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الاصابہ‘‘ میں صحابی رسول کی جو تعریف کی ہے وہ ان کے وسیع مطالعہ اور متقدمین ائمہ حدیث کے اقوال کا نچوڑ ہے، فرماتے ہیں : ’’جہاں تک میری واقفیت ہے، صحابی کی صحیح تعریف یہ ہے کہ صحابی وہ خوش نصیب شخص ہے جس کو حالتِ ایمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور حالتِ اسلام ہی میں اس کی وفات ہوئی اس تعریف کی رو سے صحابہ کی جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہے جس کی بحالت ایمان آپ سے ملاقات ہوئی ہو، قطع نظر اس کے کہ اس کو آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا زیادہ موقع ملا یا کم، اس نے آپ سے کوئی حدیث روایت کی یا نہیں ، اور وہ آپ کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک ہوا یا نہیں ؟ ’’اس تعریف کی رو سے وہ خوش نصیب بھی صحابی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو، مگر بینائی سے محروم ہونے کی وجہ سے آپ کے رخ انور کو نہیں دیکھ سکا، یا آپ کودیکھا اور فوراً چلا گیا اور دوبارہ ملاقات کا موقع نہ پا سکا، یا جس نے آپ کو نہایت کمسنی میں شعور سے پہلے دیکھا، تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دیکھنے کی وجہ سے صحابی نہیں ہے، لیکن اس اعتبار سے وہ صحابی ہے کہ اس کے چہرے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں پڑ چکی ہیں ، البتہ روایت حدیث میں وہ تابعی شمار ہوگا۔‘‘ [1] اصلاحی صاحب نے اس بات کے تحت قرآن پاک کی جن آیات سے صحابہ کرام کے درمیان مراتب اور درجات کے جس فرق پر استدلال کیا ہے وہ ان آیتوں سے مستفاد نہیں ہوتا اور بعد میں چل کر انہوں نے ’’خبر واحد‘‘ کے شرعی
[1] ص، ۷ ج: ۱