کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 172
اخبار آحاد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے منتقل ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ، لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہر خبر واحد حجت قائم کرنے کے لیے کافی ہے، اخبار آحاد محض آحاد ہونے کی بنا پر نا قابل اعتبار نہیں قرار دی جائیں گی، بلکہ ان پر اعتماد کیا جائے گا ان میں ضعف کے جو مختلف پہلو ہیں ان کی تلافی کی مختلف صورتوں پر ہمیشہ نگاہ رکھی جائے گی اور شبہ کو دور کرنے کے لیے جو وسائل وذرائع بھی استعمال ہو سکتے ہیں وہ استعمال میں لائے جائیں گے۔ [1] تبصرہ: اصلاحی صاحب کے افکار واقوال میں تضادات کی بھر مار ہے، ان کی تفسیر از ترجمہ تا تشریح وبیان تضادات کی شاہکار ہے۔ ایک منفرد اور بے مثال مفسر بننے کی خواہش نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا، پھر ان کے اندر جدید طرز کا محدث بننے کی خواہش ابھری، اور حدیث میں مؤطا امام مالک اور سنن ترمذی اور علم الحدیث میں الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایہ‘‘ کا مطالعہ کر کے وہ اس خود فریبی میں مبتلا ہو گئے کہ وہ حدیث کی تشریح وبیان اور احادیث کی صحت وسقم کے علم میں اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ احادیث کی صحت وسقم کو جانچنے اور راویوں کی ثقاہت کی پرکھ کے کچھ اصول دے سکتے ہیں ، جبکہ بقول خود علم حدیث میں ان کا سارا مدار الکفایہ پر رہا ہے۔ اصلاحی صاحب نے جب امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں ایسی بیسوں حدیثیں دیکھیں جن میں سے ہر ایک کا راوی ایک صحابی ہے، تو اس سے ’’خبر واحد کی عدم حجیت‘‘ کا ان کا دعویٰ یا نظریہ ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا، لیکن چونکہ ان کے ذہن میں یہ بات نقش ہو چکی تھی کہ خبر واحد شرعی حجت نہیں ہے، لہٰذا الرسالہ میں درج ان حدیثوں کی قبولیت اور صحابہ کرام کے اندر ان کی حجیت کے ایسے اسباب تلاش کرنا شروع کر دیے جو ان کی نظر میں ان ’’احادیث آحاد‘‘ کو حجت بنانے کے پیچھے کار فرما تھے اور جب ان کو راویوں کی فہرست میں ابو بکر وعلی رضی اللہ عنہما کے نام مل گئے، تو انہوں نے دوسری حدیثوں کو تو نظر انداز کر دیا اور دو بڑے ناموں کی بنیاد پر بعض راویوں کی حیثیت ’’عرفی‘‘ یا حکومت الٰہیہ کی نمایندگی کا افسانہ گھڑ لیا۔ اور امام شافعی کے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر دیا کہ: اس موقع پر حضرت ابو بکر اور حضرت علی نے جو کچھ کہا اور کیا اس کو ایک راوی کی روایت کا درجہ دینا اور اس سے خبر واحد کے حجت ہونے کی دلیل نکالنا بالکل بے محل ہے۔‘‘ [2] اصلاحی صاحب نے خبر واحد کے قبول وعدم قبول کے ’’بزعم خویش‘‘ جو اصول بنائے ہیں وہ تمام تر الکفایہ سے ماخوذ ہیں ، الکفایہ کے مصنف بغدادی نے اس کتاب میں ہر باب کے تحت مختلف علمائے حدیث کے اقوال نقل کیے ہیں اور جس مسئلہ سے متعلق قرآن وحدیث میں ہدایات ملی ہیں ان میں سے بھی بعض کا ذکر کیا ہے، جہاں تک قرآنی آیات کا تعلق ہے تو ان میں صحیح وضعیف کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اس لیے اصلاحی صاحب کوئی آیت غلط تو نہیں نقل کر سکتے تھے، لیکن ان آیتوں سے غلط استدلال کر سکتے تھے اور کیا ہے، رہیں احادیث اور لوگوں کے اقوال تو چونکہ امین احسن اصلاحی
[1] ص: ۱۴۴ [2] ص: ۱۲۰