کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 171
رخ کر لیتے ہیں ‘‘ آپ فرماتے ہیں : ’’ایسا کرنے میں وہ حق بجائب تھے اور اس بات کو درست ماننے سے کوئی فتنہ پھیلنے کا اندیشہ بھی نہیں تھا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب! ذرا از راہ کرم یہ بتا دیجئے کہ اگر اس خبر میں جس کا دینے والا غیر معروف ہو، کوئی فتنہ پھیلنے کا اندیشہ مضمر نہیں تھا، تو کیا ان ’’اخبار آحاد‘‘ کے قبول میں فتنہ پھیلنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے جن کے دینے والے معروف ہوں ، سامنے ہوں ، اور خبر سننے والوں کے نزدیک سچے، اور امانت دار اور قابل اعتبار حافظہ کے مالک ہوں ۔ پھر اگر خبر دینے والے کی شخصیت نظروں سے اوجھل ہے، ایسی صورت میں خبر سننے والوں نے کس طرح یہ معلوم کر لیا کہ خبر سچی ہے اور اس کا مقصد فتنہ پھیلانا نہیں ہے۔ مزید یہ کہ کیا یہ بات قرین عقل نہ تھی کہ وہ اس نماز کو، جس کی ایک رکعت وہ پڑھ چکے تھے اور ایک رکعت باقی تھی، بیت المقدس ہی کی طرف رخ کر کے پوری کر لیتے اور نماز کے بعد خبر دینے والے کی شخصیت اور اسکی خبر کی تحقیق کر لینے کے بعد اگلی نماز کعبہ مشرفہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے‘‘ مگر نہیں ، وہ سب صحابی رسول تھے اور اللہ ورسول کے حوالہ سے کوئی حکم سننے پر اس کی تعمیل میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرنے کے روادار نہ تھے، نیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے کوئی جھوٹی خبر سننے کا تجربہ نہیں تھا اس لیے ادھر ان کو خبر ملی اُدھر انہوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ آپ نے جو یہ فرمایا ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے سے فاصلے پر مدینہ کی بسی میں موجود تھے اور کسی بھی وقت اس خبر کی تصدیق آپ سے کی جا سکتی تھی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب! کیا میں آپ سے یہ سوال کرنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ آپ نے یہ بات نیم بیداری اور نیم خواب میں فرمائی ہے، یا مکمل بیداری میں مگر عقل کو کنارے رکھ کر؟ معاف کیجئے، میں یہ طرز بیان اختیار کرنے پر اس لیے مجبور ہوں کہ خبر کی تصدیق اس پر عمل کرنے سے پہلے کی جاتی ہے اور جس ذات مقدس کے حوالہ سے خبر ملی ہے، اگر وہ قریب ہی موجود ہو تو عمل سے پہلے تصدیق وتحقیق کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے؟!! ویسے میں قارئین کرام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روایت کے حوالہ سے ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ کسی نے کسی سے کوئی حدیث سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصدیق کی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روایت حدیث کی نعمت وفضیلت سے ہمیشہ منافقین کو محروم رکھا ہے اور عہد صحابہ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی منافق نے کوئی حدیث روایت یا بیان کی ہو، ایسی صورت میں خبر کی تصدیق کی ضرورت تھی ہی نہیں ۔ امین احسن اصلاحی نے ’’احبار آحاد کی حجیت‘‘ کے باب کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: