کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 170
ہیہات! اس لیے وہ عام راوی کی روایت اور مسلمانوں کے چوٹی کے لیڈروں کے احکام وہدایات کی راگ الاپنے لگے۔ آخر کب مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے دی جانے والی یا ملنے والی خبروں میں صحت وکذب جانچنے کے لیے خبر دینے والوں میں یہ گروہ بندی کی ہے؟ اور ابو بکرو عمر رضی اللہ عنہما کی خبروں کو تو قبول کر لیا ہے اور ابو ذر و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی خبروں کو رد کر دیا ہے، علمی مباحث میں ہمیشہ دلائل کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔ ’’میں نے مشتے از حزوارے‘‘ کے طور پر حدیث واحد کے شرعی حجت ہونے کے جو دلائل دیے ہیں ان کی روایت کرنے والے ’’مسلمانوں کے چوئی لیڈر‘‘ یا اسلامی حکومت کے نمایندے‘‘ تو نہں تھے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے: ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ﴾ (الاعراف: ۱۵۷) ’’جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔‘‘ کیا ان اعلیٰ صفات سے موصوف اور یہ عطر بیز سیرت وکردار رکھنے والے صحابیوں میں اس اعتبار سے کوئی درجہ بندی تھی کہ ان میں سے کچھ کی روایت کردہ حدیثوں کو لوگ سر آنکھوں پر رکھتے تھے اور ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے تھے اور بعض کی روایتوں کو عام راوی‘‘ کی روایت کہہ کہ ٹھکرا دیتے تھے، اگر ان منکرین میں سے کسی کے پاس اس کے اس دعویٰ کی دلیل ہے تو پیش کرے۔ برنی دو قدم آگے: ڈاکٹر افتخار برنی کا ذکر خیر اس کتاب میں بار بار آچکا ہے موصوف سعودی عرب میں منکرین حدیث کے نمایندے اور اصلاحی صاحب کے ’’خلیفہ‘‘ ہیں اور ’’تقیہ‘‘ کر کے سچے ’’موحد‘‘ کی شناخت بنائے ہوئے ہیں ، ’’خبر واحد‘‘ کے حجت ہونے کے موقع پر میرے ایک مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف نے یہ فرمایا تھا۔ ’’قبا کے مسلمانوں نے ایک صحابی کی بات کو درست تسلیم کر کے اس پر عمل کیا اور ایسا کرنے میں وہ حق بجائب تھے یہ چیز ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس بات کو درست ماننے سے کوئی فتنہ پھیلنے کا اندیشہ بھی نہیں تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے فاصلے پر مدینہ کی بستی میں موجود تھے اور کسی بھی وقت اس خبر کی تصدیق آپ سے کی جا سکتی تھی۔‘‘ برنی سے ایک سوال: تاریکی میں نماز فجر ادا کرنے والے مسلمانوں کو پیچھے سے ایک آدمی، جس کو وہ جانتے پہچانتے نہیں ، خبر دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’تحویل قبلہ‘‘ کا حکم نازل ہو گیا ہے‘‘ یہ سنتے ہی وہ لوگ بیت المقدس سے منہ پھیر کر کعبۃ اللہ کی طرف