کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 169
سے خبر واحد کے حجت ہونے کی دلیل نکالنا بالکل بے محل ہے۔ [1] راوی کی روایت اور سرکاری اہل کار کی خبر میں فرق: اصلاحی صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے اور جو بڑ ماری ہے اس کی نکارت بیان کرنے سے قبل میں اس موقع کے بالکل مناسب اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد نقل کر دیتا ہوں ، پھر کچھ عرض کروں گا: ﴿قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۱۱) ’’اگر تم سچے ہو تو لاؤ اپنی دلیل۔‘‘ یہ دراصل اس آیت کا آخری فقرہ ہے جس میں یہود و نصاریٰ کے یہ دعوے نقل کیے گئے ہیں کہ جنت میں صرف یہودی اور نصاریٰ جائیں گے، یعنی یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جنت میں صرف یہودی جائیں گے اور نصاریٰ کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ جنت میں صرف نصاریٰ جائیں گے۔ اصلاحی صاحب محرف قدیم آسمانی صحیفے یا یہودو نصاریٰ کی محرف کتابیں بہت پڑھتے تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ ان کی تفسیر تدبر قرآن میں حدیث سے تو شاذو نادر ہی استدلال کیا گیا ہے، لیکن قدیم آسمانی صحیفوں سے استدلال کی بھر مار ہے، اور اگر میں یہ کہوں کہ حدیث پر ان کے اعتراصات میں وہی رنگ ہے جو قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم پر یہودیوں کے اعتراضات میں ہے، بلکہ منکرین حدیث کے اقوال بڑی حد تک یہودی مستشرقین کے اقوال سے مشابہ ہیں ، تو مبالغہ نہ ہوگا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالہ میں خبر واحد کے حجت ہونے کی بہت سی مثالیں دی ہیں جن میں سے کسی ایک کی بھی تردید نہیں کی جا سکتی، انہی کے ضمن میں انہوں نے ابو بکر وعلی رضی اللہ عنہما کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے، یہودی صحیفوں کے دلدادہ اصلاحی صاحب نے ان تمام مثالوں میں سے صرف ابو بکر وعلی سے متعلق مثالیں منتخب کر لیں ، جن کو انہوں نے بظاہر اپنے حق میں پایا، اس طرح ان کو ’’عام راوی کی روایت‘‘ اور حکومت کے سفیر، نمایندے اور سرکاری اتھارٹی کے مظہر کے احکام وہدایات میں تفریق کرنے کا موقع مل گیا۔ اگر اصلاحی صاحب حق پسند اور حق کے جو یا ہوتے تو ان نا قابل تردید دلائل کو پڑھ کر خاموش ہو جاتے، اور اگر ان کے اندر اخلاقی بہادری اور جرأت ہوتی تو وہ امام شافعی کے دوسرے دلائل میں سے کم از کم دو ایک کا بھی ذکر کے ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے، لیکن چونکہ ان ’’اخبار آحاد‘‘ سے ان کے سارے دعوے باطل ہو جاتے ہیں اس لیے انہوں نے ان سے صرف نظر کر لینے ہی میں عافیت سمجھی۔ امام شافعی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے ائمہ ہدایت ورشد کا اس امر پر اتفاق تھا کہ خبر واحد شرعی حجت ہے، اگر اصلاحی صاحب کے اندر دم ہوتا تو وہ ایک یا دو مثالوں سے اس دعوے کو غلط ثابت کرتے، مگر
[1] ص: ۱۲۰