کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 168
حوالہ سے ان باتوں کی خبر دی جو ان کے لیے نفع بخش ہیں یا ضرر رسان۔[1] ۲۔ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بھی سفیر بنا کر بھیجا اور ان کو یہ ذمہ داری سو نپی کہ وہ حجاج کو سورۂ توبہ کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنا دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مشرکین سے کیے گئے جن معاہدوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا ان کے ختم کر دینے کا اعلان کر دیں اور کچھ لوگوں کو متعینہ مدت تک ان معاہدوں پر عمل کرنے کی مہلت دے دیں ۔‘‘ اس کے بعد امام شافعی نے لکھا کہ: ’’ابو بکر اور علی اہل مکہ کے نزدیک فضل، دیانتداری اور صدق گوئی میں معروف تھے اور جو لوگ ان دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو نہیں جانتے تھے ان کو حجاج میں ایسا شخص مل سکتا تھا جو ان دونوں کی صدق گوئی اور فضل کے بارے میں ان کو خبر دے سکتا تھا۔‘‘ ’’اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے ہی ایک شخص کو اپنی خبر دے کر روانہ کر سکتے تھے جس کی دی ہوئی خبر ان لوگوں کے نزدیک دلیل وحجت ہوتی جن کے پاس آپ نے اس کو بھیجا تھا۔‘‘ اصلاحی کا دعویٰ: تدبر قرآن کے مصنف امین احسن نے خبر واحد کے حجت ہونے پر امام شافعی کے مذکورہ بالا استدلال پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ہمارے نزدیک امام صاحب کی یہ بات کچھ کمزور ہے، یہ اکابر اس موقع پر نہ راوی کی حیثیت سے آئے تھے، نہ ان کے اعلان کی حیثیت ’’اخبار آحاد‘‘ کی تھی اور نہ ان کے قول وفعل کو مسلمانوں نے خبر واحد کی حیثیت سے سنا اور مانا، بلکہ ان کو ہر شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور سفیر کی حیثیت سے دیکھا اور اسی حیثیت سے ان کے احکام وہدایات کی تعمیل کی… یہ تو مسلمانوں کے چوٹی کے لیڈروں میں سے تھے، اگر کوئی تیسرے درجہ کا آدمی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایندے یا سفیر کی حیثیت سے آتا تو اس کی پوزیشن بھی بالکل انہی کی ہوتی، اس کے قول وفعل کو بھی اس حیثیت سے نہ دیکھا جاتا کہ وہ خبر واحد کا حامل ہے، بلکہ اس حیثیت سے دیکھا جاتا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمایندہ ہے۔‘‘ ’’کسی حکومت کے امراء وعمال کی ایک ’’حیثیت عرفی‘‘ ہوتی ہے جس کو حکومت اور عوام دونوں جانتے ہیں ، ان کی باتیں ان کی حیثیت عرفی کی روشنی میں جانچی جاتی ہیں وہ ایک اتھارٹی کے مظہر ہوتے ہیں جس کا احترام ہر شخض کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے اس موقع پر حضرت ابو بکر اور حضرت علی نے جو کچھ کہا اور کیا اس کو ایک راوی کی روایت کا درجہ دینا اور اس
[1] الرسالۃ، ص: ۲۷۳