کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 167
کرتے ہی اس نظر سے ہیں کہ اس میں ان کو اپنے بیمار دل کی غذا مل جائے ان کے لیے تو سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں بھی اطمینان قلب فراہم نہیں کر سکتیں : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَہْدِیْہِمُ اللّٰہُ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ﴾ (النحل: ۱۰۴۔۱۰۵) ’’درحقیقت جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں ۔‘‘ اور اللہ کی آیتوں میں احادیث رسول بھی داخل ہیں ، کیونکہ ان کی شرعی حیثیت اللہ تعالیٰ ہی کی متعین کردہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب اخبار الآحاد کے تحت ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ((ما کان یبعث النبی صلي اللّٰه عليه وسلم من الأمراء، والرسل واحدا بعد واحد))’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یکے بعد دیگرے جو امراء اور سفراء بھیجا کرتے تھے اس کا باب۔‘‘ اس باب اور اس کے تحت درج حدیثوں سے امام بخاری نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ ایک شخص کی خبر حجت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ ایک سے زیادہ امراء اور سفراء روانہ کرتے۔ امام بخاری سے قبل امام شافعی رحمہ اللہ نے الام اور الرسالہ میں اس مسئلہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوجی دستے بھیجے اور ہر دستہ پر ایک امیر مقرر کیا، اور متعدد بادشاہوں کے پاس اپنے سفراء بھیجے اور وہ اس طرح کہ ہر بادشاہ کے پاس صرف ایک سفیر بھیجا، اسی طرح آپ کے تعینات کردہ والیوں کے نام آپ کے فرامین ایک ایک شخص کے ساتھ بھیجے جاتے رہے اور آپ کے والیوں میں سے کوئی بھی آپ کے احکام کی تنفیذ سے پہلو تہی نہیں کرتا، یہی حال آپ کے بعد آپ کے خلفائے اربعہ کا بھی تھا۔ [1] امین احسن اصلاحی نے ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ میں امام شافعی کے استدلالات پر تنقید کی ہے اور میں نے الرسالہ سے جو مثالیں اوپر دی ہیں ان میں سے کسی سے تعرض نہیں کیا ہے، اس لیے کہ ان سے ان کی کور دبتی تھی، الرسالہ سے انہوں نے ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے امیر حج اور علی رضی اللہ عنہ کے سفیر بنائے جانے کے واقعہ کو بنیاد بنا کر امام شافعی کو نشانہ بنایا ہے میں پہلے امام شافعی کا بیان نقل کر دیتا ہوں ، پھر اصلاحی کے دعوے پر تبصرہ کروں گا تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رہیں ، امام شافعی فرماتے ہیں : ۱۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا جس میں مختلف شہروں اور قبیلوں کے لوگ شریک ہوئے اور ابو بکر نے ان کو حج کے مناسک ادا کرائے نیز انہوں نے حج میں حصہ لینے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
[1] فتح الباری، ص: ۳۲۴۸، ج: ۳، الرسالۃ، ص: ۲۷۲۔۲۷۶