کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 166
جملۂ معترضہ: یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ واضح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عصر صحابہ یا بعد کے ادوار میں کسی مسئلہ پر مسلمانوں کے اجماع کا دعویٰ درست نہیں ہے، کیونکہ اجماع کے معنی ہیں کہ اس مسئلہ میں سب لوگ بلا استثناء متفق الخیال رہے ہوں اور یہ معلوم کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے، اسی وجہ سے امام احمد کا یہ قول ہے کہ اجماع کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے، البتہ کسی مسئلہ پر اجماع اس معنی میں بولنا درست ہے کہ: ’’مجھے لوگوں میں اس کا کوئی مخالف نہیں معلوم‘‘ کیونکہ ’’مجمع علیہ‘‘ مسئلہ میں کسی بھی طبقہ کے اجماع کرنے والوں کا ’’استقصاء‘‘ ناممکن ہے لیکن اس کے مخالفین کو معلوم کرنا ممکن ہے، اس لیے کہ اگر وہ ہوں گے تو بہت کم تعداد میں ہوں گے، اسی وجہ سے امام شافعی نے ’’خبر واحد‘‘ کو قبول کرنے اور اس کی حجت تسلیم کرنے پر ’’اجماع‘‘ کے بعد یہ تصریح کر دی ہے کہ فقہاء مسلمین میں ایسا کوئی نہیں معلوم جس نے ’’خبر واحد‘‘ کو ثابت نہ مانا ہو‘‘ حدیث واحد کے شرعی حجت ہونے کے مسئلہ میں استثنائی حالت: امام شافعی نے یہ صراحت کرنے کے بعد کہ مجھے فقہاء مسلمین میں ایسے لوگ یاد نہیں جنہوں نے خبر واحد کو صحیح اور ثابت ماننے میں اختلاف کیا ہو، تحریر فرمایا ہے: ’’میرے نزدیک کسی بھی عالم کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بہت ساری حدیثوں کو ثابت وصحیح مانے اور ان کی بنیاد پر تحلیل وتحریم کے احکام جاری کرے، پھر اسی طرح کی دوسری حدیثوں کو مسترد کرے، سوائے اس صورت کے کہ اس کے علم میں اس حدیث کی مخالف کوئی حدیث ہو، یا اس نے جس شخص سے حدیث سنی ہو اس کا راوی اس حدیث کے راوی سے زیادہ ثقہ ہو، یا جس حدیث کو اس نے رد کیا ہے اس کی روایت کرنے والا حافظ نہ ہو، یا اس کے نزدیک وہ غلط بیانی کا ملزم ہو، یا اس کے اوپر کا راوی غلط بیانی کا ملزم ہو، یا حدیث دو معنوں کا احتمال رکھتی ہو اور وہ تاویل کر کے ایک کو لے لے اور دوسری کو نہ لے۔‘‘ اب اگر کوئی وہم زدہ اس وہم اور خیال خام میں مبتلا ہو کہ ایک صاحب عقل فقیہ خبر واحد کے ذریعہ ایک بار نہیں متعدد بار کسی عمل کو سنت اور شرعی طریقہ قرار دے چکا ہو، پھر اسی طرح کی یا اس سے زیادہ قابل اعتماد حدیث کو مذکورہ بالا وجوہ اور اسباب میں سے کسی وجہ اور سبب کے بغیر مسترد کر سکتا ہے تو ان شاء اللہ ایسا جائز نہیں ہے۔ [1] راویان حدیث کی حیثیت عرفی: میں نے اوپر حدیث واحد کے شرعی دلیل وحجت ہونے کی جو مثالیں دی ہیں وہ ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جو اہل حق ہیں یا حق جاننا چاہتے ہیں ، رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں حدیث کے حوالے سے فتور ہے اور جو حدیث کا مطالعہ
[1] الرسالہ ص: ۲۹۱۔۲۹۸