کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 165
ہوں یہ میرے اوپر اور جو اسے سنے اس پر فرض ہے، اللہ نے لوگوں میں سے محمد کو چنا، اور آپ کے ذریعہ اور آپ کے ہاتھوں ان کو ہدایت بخشی اور ان کے لیے وہی پسند فرمایا جو آپ کے لیے پسند فرمایا اور آپ کی زبان سے پسند فرمایا، لہٰذا خلق پر یہ فرض قرار پایا کہ وہ بطیب خاطر یا ذلیل وخوار ہو کر آپ کی پیروی کریں ، کسی بھی مسلمان کے لیے اس سے مفر نہیں ‘‘ وہ خاموش نہیں ہوئے یہاں تک کہ میں خواہش کرنے لگا کہ خاموش ہو جائیں ۔ [1] امام شافعی فرماتے ہیں : حدیث سے متعلق یہی ہمارے اسلاف اور ان کے بعد آنے والوں کا طرز عمل رہا ہے اور دوسرے شہروں کے اہل علم کے حوالہ سے ہمیں جو خبریں ملی ہیں وہ بھی ان کے اسی طرز عمل کی خبر دے رہی ہیں ۔ ہم نے مدینہ میں سعید بن مسیب کو یہ فرماتے ہوئے پایا کہ: ’’مجھے ابو سعید خدری نے سونے اور چاندی کے لین دین کے مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ خبر دی‘‘ اور ان کی اس حدیث کو بطور سنت ثبت کر دیا، اور فرمایا: مجھ سے ابو ہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی اور ان کی اس حدیث کو بطور سنت ثبت کر دیا، ان دونوں کے سوا کسی اور کے حوالے سے بھی حدیث روایت کرنے کے بعد یہی کیا کہ اس کو سنت قرار دے دیا۔ یہی حال عروہ کا بھی تھا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنتے تو ان کو سنت اور تحلیل وتحریم کا ماخذ قرار دے دیتے، اور انہوں نے ان سے کثیر تعداد میں حدیثیں روایت کی ہیں ۔ اس طرح ہم نے انہیں یہ بھی فرماتے ہوئے پایا ہے کہ: ’’مجھ سے اسامہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی، اور مجھ سے عبداللہ بن عمر نے حدیث بیان کی اور ان کے سوا دوسروں نے حدیثیں بیان کیں ، اور ہر ایک کی حدیث کو انفرادی شکل میں سنت قرار دے دیا۔ ان کو ہم نے یہ بھی فرماتے ہوئے پایا ہے کہ: مجھ سے عبدالرحمن بن عبد قاری نے عمر سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، اور مجھ سے یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب نے، اپنے باپ سے اور انہوں نے عمر سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا اور ان میں سے عمر کے حوالہ سے ہر ایک خبر کو ثبت کر دیا۔ اس کے بعد امام شافعی نے طبقہ تابعین کے بیسیوں محدثین اور فقہاء کا نام لے کر یہ بیان کیا ہے کہ یہ تمام اپنے اوپر کے اور نیچے کے راویوں کی احادیث آحاد کو سنتے ہیں قبول کر لیتے ہیں پھر فرمایا ہے: اگر کسی کے لیے علم الخاصہ (حدیث واحد) کے بارے میں یہ کہنا جائز ہے کہ قدیم زمانے میں اور موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اس امر پر اجماع رہا ہے کہ وہ خبر واحد کو ثابت مانتے تھے اور اس کو اپنا منتہائے مقصود قرار دیتے تھے، کیونکہ فقہائے مسلمین میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں معلوم جس نے خبر واحد کو ثابت نہ قرار دیا ہو، تو میرے لیے بھی ایسا کہنا جائز ہے۔
[1] الرسالہ، ص: ۲۹۲، سیر أعلام النبلاء ص: ۱۰۴، ج: ۷