کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 164
کہا: آپ نے اجتہاد کیا اور آپ کا فیصلہ نافذ ہو چکا، سعد نے جواب دیتے ہوئے کہا: کس قدر تعجب کی بات ہے، کیا میں ام سعد کے بیٹے سعد کا فیصلہ نافذ کر دوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ رد کر دوں ؟ نہیں ، بلکہ میں ام سعد کے بیٹے سعد کے فیصلہ کو مسترد کرتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نافذ کرنے جا رہا ہوں ۔ پھر سعد نے لکھا ہوا فیصلہ منگوایا اور اسے پھاڑ دیا۔ [1] ایک ضروری وضاحت: سعد بن ابراہیم، مشہور صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے اور مدینہ میں منصب قضا پر فائز تھے وہ حدیث اور فقہ میں امام اور حجت تھے ۱۲۵ھ میں وفات پائی، ملاحظہ ہو: ’’جب کوئی اپنی یا غیر کی تحقیر کرتا ہے تو وہ اس کو اس کی ماں کا بیٹا‘‘ کہتا ہے، سعد نے اپنے آپ کو ام سعد کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مقابلے میں اپنے فیصلہ کی تنفیذ کا مشورہ سن کر ازراہ تحقیر کہا تھا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سننے اور معلوم ہونے کے بعد اپنی سابقہ رائے پر قائم رہے اور حدیث پر عمل نہ کرے یا اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے حدیث میں عیب اور کیڑے نکالے اس سے بڑا کوئی حقیر نہیں ۔‘‘ [2] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھے ابو حنیفہ بن سماک بن فضل شہابی (امام شافعی کے استاذ) نے خبر دی، کہا: مجھ سے ابن ابی ذئب نے، مقبری سے، اور انہوں نے ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ’’عام الفتح‘‘ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من قَتل لہ قتیل فہو بخیر النظرین: إن أحب أخذ العقل، وإن أحب فلہ القود۔)) [3] ’’جس کا کوئی آدمی قتل کر دیا جائے تو اس کو دو امور میں سے ایک کا اختیار ہے، چاہے تو خون بہا (دیت) لے لے اور اگر چاہے تو اس کو قصاص لینے کا حق ہے۔‘‘ ابو حنیفہ، امام شافعی کے شیخ ابو حنیفہ بن سماک شہابی مراد ہیں ، کا بیان ہے کہ میں نے ابن ابی ذئب سے کہا: ابو الحارث! کیا آپ اس کو مانتے ہیں ؟ یہ سن کر انہوں نے میرے سینے پر مارا، مجھے ڈانٹ پلائی اور مجھے سخت سست کہا اور کہا: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو: کیا تم اس کو مانتے ہو؟ جی ہاں میں اس کو مانتا
[1] الرسالہ ص: ۲۹۱۔۲۹۲، سیر أعلام النبلاء، ص: ۲۲۳، ج ۶ [2] سیر أعلام النبلاء ص: ۲۲۲۔۲۲۴، ج: ۶ [3] الرسالۃ ص: ۲۹۲، فقرہ: ۱۲۳۴، ابو داؤد: ۴۵۰۴، ترمذی: ۱۴۰۶