کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 163
یک طرفہ نقصان کا پہلو غالب ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ سے بھی منع فرما دیا۔ [1]
تیرہویں دلیل، متوفی عنہا زوجہا کے اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارنے کی حدیث:
مشہور صحابی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں کہ ان کے شوہر فرار ہو جانے والے اپنے غلاموں کی تلاش میں نکلے اور قدوم کے مقام پر ان کو جا لیا، لیکن انہوں نے ان کو قتل کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میں اپنے اہل خانہ میں واپس چلی جاؤں ، کیونکہ میرے شوہر نے ایسا کوئی رہائشی مکان نہیں چھوڑا ہے جس کے وہ مالک رہے ہوں اور نہ مصارف ہی چھوڑے ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور میں آپ کے پاس سے چلی گئی، اور جبکہ میں ابھی حجرۂ شریفہ ہی میں تھی یا مسجد میں کہ آپ نے مجھے بلایا۔ یا میں حکم دے کر بلائی گئی، اور آپ نے پوچھا کہ تم نے اپنا کیا ماجرا بیان کیا تھا؟ میں نے اپنا واقعہ دہرا دیا، کہتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اُمکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتابُ أجلہ۔))
’’اپنے گھر میں رہو یہاں تک کہ لکھا ہوا حکم اپنی آخری مدت کو پہنچ جائے۔‘‘
فریعہ فرماتی ہیں : میں نے اس گھر میں چار ماہ دس ۱۰ دن کی عدت گزاری اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو خبر دی جس پر انہوں نے عمل کیا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ [2]
وجہ استدلال:
امام شافعی فرماتے ہیں : عثمان نے اپنی امامت اور اپنے علم کے باوجود انصار ومہاجرین کے درمیان ایک عورت کی خبر کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔
حدیث واحد سے متعلق ائمہ اسلام کا طرز عمل:
امام شافعی فرماتے ہیں :
’’مدینہ کے ایک شخص نے جس کو میں ملزم نہیں گردانتا، ابن ابی ذئب سے روایت کرتے ہوئے مجھے خبر دی، کہا: سعد بن ابراہیم نے ایک مسئلہ میں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کی رائے کے مطابق فیصلہ کیا، تو میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی حدیث کی خبر دی جو ان کے فیصلے کے خلاف تھی، اس پر سعد نے ربیعہ سے کہا: یہ ابن ابی ذئب ہیں جو میرے نزدیک ثقہ ہیں ، یہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی حدیث کی خبر دے رہے ہیں جو میرے فیصلہ کے خلاف ہے۔ ربیعہ نے ان سے
[1] بخاری: ۲۲۴۶۔ ۲۲۴۷
[2] ابو داؤد: ۲۳۰۰، ترمذی: ۱۴۰۴، نسائی: ۳۵۲۹، ابن ماجہ:۲۰۳۱، المؤطا، کتاب الطلاق: ۸۷، الدارمی: ۲۲۸۷، الرسالۃ ص: ۲۸۶، فقرہ: ۱۲۱۴